جب خدا وند ُ عالم نے آپ کو جمل والوںپر غلبہ عطا کیا تو اس موقعہ پر آپ کے ایک صحابی نے آپ سے عرض کیا کہ میرا فلاںبھائی بھی یہاںموجود ہوتا تو وہ بھی دیکھتا کہ اللہ نے کیسی آپ کو دشمنوںپر فتح و کامرانی عطا فرمائی ہے تو حضرت نے فرمایا کہ کیا تمہارا بھائی ہمیںدوست رکھتا ہے ? اس نے کہا کہ ہاں, تو آپ نے فرمایا کہ وہ ہمارے پاس موجود تھا بلکہ ہمارے اس لشکر میںوہ اشخاص بھی موجود تھے جو ابھی مردوںکی صلب اور عورتوںکے شکم میںہیں. عنقریب زمانہ انہیںظاہر کرے گا اور ان سے ایمان کو تقویت پہنچے گی.
اگر کوئی شخص اسباب و ذرائع کے ہوتے ہوئے کسی عملِ خیر میںکوتاہی کر جائے, تویہ کوتاہی و بے التفاقی اس کی نیت کی کمزوری کی آئینہ دار ہو گی. اگر عمل میں کوئی مانع سد راہ ہو جائے یا زندگی وفا نہ کرے جس کی وجہ سے عمل تشنہ تکمیل رہ جائے تو اس صورت میںانما الا عمال بالنیات کی بنائ پر اللہ اسے اجرو ثواب سے محروم نہ کرے گا. کیونکہ اس کی نیت تو بہر حال عمل کے بجالانے کی تھی , لہذا کسی حد تک وہ ثواب کا مستحق بھی ہو گا.
عمل میں تو ممکن ہے کہ ثواب سے محرومی ہو جائے اس لئے کہ عمل میں ظاہر داری و ریا کاری ہو سکتی ہے . مگر نیت تو دل کی گہرائیوں میں مخفی ہوتی ہے . اس میں نہ دکھا وا ہو سکتا ہے نہ اس میں ریاکا شائبہ آ سکتا ہے . وہ خلوص و صداقت اور کمال صحت کی جس حد پر ہو گی اسی حد پر رہے گی خواہ عمل کسی مانع کی وجہ سے نہ ہو سکے بلکہ اگر موقع و محل کے گزر جانے کی وجہ سے نیت و ارادہ کی گنجائش نہ بھی ہو . لیکن دل میں ایک تڑپ اور ولولہ ہو تو انسان اپنے قلبی کیفیات کی بنائ پر اجرو ثواب کا مستحق ٹھہرے گا اور اسی چیز کی طرف امیر المومنین نے اس خطبہ میں ارشاد فرمایا ہے . اگر تمہارے بھائی کو ہم سے محبت تھی , تو وہ ان لوگوں کے ثواب میں شریک ہو گا. جنہوں نے ہماری معیت میں جامِ شہادت پیا ہے .
No comments:
Post a Comment