Saturday, 18 April 2009

خطبہ ۳۹ و اردو ترجمہ

- و من خطبة له ( عليه السلام ) خطبها عند علمه بغزوة النعمان بن بشير صاحب معاوية لعين التمر، و فيها يبدي عذره، و يستنهض الناس لنصرته:

مُنِيتُ بِمَنْ لَا يُطِيعُ إِذَا أَمَرْتُ وَ لَا يُجِيبُ إِذَا دَعَوْتُ لَا أَبَا

نهج البلاغة : ........... ............ صفحة : (82)

لَكُمْ مَا تَنْتَظِرُونَ بِنَصْرِكُمْ رَبَّكُمْ أَ مَا دِينٌ يَجْمَعُكُمْ وَ لَا حَمِيَّةَ تُحْمِشُكُمْ أَقُومُ فِيكُمْ مُسْتَصْرِخاً وَ أُنَادِيكُمْ مُتَغَوِّثاً فَلَا تَسْمَعُونَ لِي قَوْلًا وَ لَا تُطِيعُونَ لِي أَمْراً حَتَّى تَكَشَّفَ الْأُمُورُ عَنْ عَوَاقِبِ الْمَسَاءَةِ فَمَا يُدْرَكُ بِكُمْ ثَارٌ وَ لَا يُبْلَغُ بِكُمْ مَرَامٌ دَعَوْتُكُمْ إِلَى نَصْرِ إِخْوَانِكُمْ فَجَرْجَرْتُمْ جَرْجَرَةَ الْجَمَلِ الْأَسَرِّ وَ تَثَاقَلْتُمْ تَثَاقُلَ النِّضْوِ الْأَدْبَرِ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ مِنْكُمْ جُنَيْدٌ مُتَذَائِبٌ ضَعِيفٌ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وَ هُمْ يَنْظُرُونَ .

قال السيد الشريف : أقول ، قوله ( عليه السلام ) " متذائب " أي مضطرب من قولهم تذاءبت الريح أي اضطرب هبوبها و منه سمي الذئب ذئبا لاضطراب مشيته .

خطبہ 39: جنگ سے جی چرانے والوں کی مذمت میں

میرا ایسے لوگوں سے سابقہ پڑا ہے جنہیں حکم دیتا ہوں تو مانتے نہیں. بلاتا ہوں, تو آواز پر لبیک نہیں کہتے. تمہارا بُرا ہو. اب اپنے اللہ کی نصرت کرنے میں تمہیں کس چیز کا انتظار ہے. کیا دین تمہیں ایک جگہ اکھٹا نہیں کرتا اور غیرت و حمیت تمہیں جوش میں نہیں لاتی?میں تم میں کھڑا ہو کر چلاتا ہوں اور مدد کے لیے پکارا ہوں, لیکن تم نہ میری کوئی بات سنتے ہو, نہ میرا کوئی حکم مانتے ہو یہاں تک کہ ان نافرمانیوں کے بُرے نتائج کھل کر سامنے آجائیں. نہ تمہارے ذریعے خون کا بدلا لیا جا سکتا ہے, نہ کسی مقصد تک پہنچا جا سکتا ہے. میں نے تم کو تمہارے ہی بھائیوں کی مدد کے لیے پکارا تھا. مگر تم اس اونٹ کی طرح بلبلا نے لگے. جس کی ناف میں درد ہو رہا ہو, اور اس لاغر کمزور شتر کی طرح ڈھیلے پڑ گئے جس کی پیٹھ زخمی ہو پھر میرے پاس تم لوگوں کی ایک چھوٹی سی متزلزل و کمزور فوج آئی. اس عالم میں کہ گویا اسے اس کی نظروں کے سامنے موت کی طرف دھکیلا جارہا ہے.

سید رضی فرماتے ہیں کہ اس خطبہ میں جو لفظ ~0متذاےب~0آیا ہے, اس کے معنی مضطرب کے ہیں. جب ہوائیں بل کھاتی ہوئی چلتی ہیں, تو عرب اس موقعہ پر ~0تذائبت الریح~0 بولتے ہیں اور بھیڑ یئے کو بھی ذئب اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ اس کی چال میں ایک اضطرابی کیفیت ہوتی ہے.معاویہ نے مقامِ مین التمر پر دھاوا بولنے کے لیے دو ہزار سپاہیوں کا ایک دستہ نعمان ابنِ بشیر کی سر کردگی میں بھیجا. یہ جگہ کوفہ کے قریب امیرالمومنین کا ایک دفاعی مورچہ تھی. جس کے نگران مالک ابن کعب ارحبی تھے. گو ان کے ماتحت ایک ہزار جنگجو افراد تھے. مگر اس موقعہ پر صرف سو 001~0 آدمی وہاں موجود تھے. جب مالک نے حملہ آور لشکر کو برھتے دیکھا تو امیرالمومنینعلیہ السّلام کو کمک کے لیے تحریر کیا جب امیرا لمومنینعلیہ السّلام کو یہ پیغام ملا ہے , تو آپ نے لوگوں کو ان کی امداد کے لیے کہا, مگر صرف تین سو آدمی آمادہ ہوئے . جس سے حضرت بہت بد دل ہوئے اور انہیں زجرو توبیخ کرتے ہوئے یہ خطبہ ارشاد فرمایا. حضرت خطبہ دینے کے بعد جب مکان پر پہنچے, تو عدی ابن حاتم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یا امیرالمومنینعلیہ السّلام میرے ہاتھ میں بنی طے کے ایک ہزار افراد میں اگر آپ حکم دیں تو انہیں روانہ کر دوں? حضرت نے فرمایا کہ یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ دشمن کے سامنے ایک ہی قبیلہ کے لوگ پیش کیے جائیں. تم وادی نخیلہ میں جا کر لشکر بندی کرو. چنانچہ انہوں نے وہاں پہنچ کر لوگو ں کو جہاد کی دعوت دی , تو بنی طے کے علاوہ ایک ہزار اور جنگ آزما جمع ہو گئے. یہ ابھی کوچ کیتیاریکر ہی رہے تھےکہ مالک ابنِ کعب کا پیغام آگیا کہ اب مدد کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم نے دشمن کو مار بھگایا ہے.

اس کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ مالک نے عبداللہ ابن جوزہ کو قرظہ ابنِ کعب اور مخنف ابنِ سلیم کے پاس دوڑا دیا تھا کہ اگر کوفہ سے مدد آنے میں تاخیرہو تو یہاں سے بر وقت امداد مل سکے. چنانچہ عبداللہ دونوں کے پاس گیا مگر قرظہ سے کوئی امداد نہ مل سکی. البتہ مخنف ابنِ سلیم نے پچاس آدمی عبدالرحمن ابنِ مخنف کے ہمراہ تیار کیے, جو عصر کے قریب وہاں پہنچے. اس وقت تک یہ دو ہزار آدمی مالک کے سو آدمیوں کو پسپا نہ کر سکے تھے. جب نعمان نے ان پچاس آدمیوں کو دیکھا , تو یہ خیال کیا کہ اب ان کی فوجیں آنا شروع ہو گئی ہیں. لہذا وہ میدان سے بھاگ کھڑا ہوا. مالک نے ان کے جاتے جاتے بھی عقب سے حملہ کر کے ان کے تین آدمیوں کو مار ڈالا.



No comments: