- و من كلام له ( عليه السلام ) في ذم أهل البصرة بعد وقعة الجمل :
كُنْتُمْ جُنْدَ الْمَرْأَةِ وَ أَتْبَاعَ الْبَهِيمَةِ رَغَا فَأَجَبْتُمْ وَ عُقِرَ فَهَرَبْتُمْ أَخْلَاقُكُمْ دِقَاقٌ وَ عَهْدُكُمْ شِقَاقٌ وَ دِينُكُمْ نِفَاقٌ وَ مَاؤُكُمْ زُعَاقٌ وَ الْمُقِيمُ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ مُرْتَهَنٌ بِذَنْبِهِ وَ الشَّاخِصُ عَنْكُمْ مُتَدَارَكٌ بِرَحْمَةٍ مِنْ رَبِّهِ كَأَنِّي بِمَسْجِدِكُمْ كَجُؤْجُؤِ
نهج البلاغة : ........... ............ صفحة : (56)
سَفِينَةٍ قَدْ بَعَثَ اللَّهُ عَلَيْهَا الْعَذَابَ مِنْ فَوْقِهَا وَ مِنْ تَحْتِهَا وَ غَرِقَ مَنْ فِي ضِمْنِهَا وَ فِي رِوَايَةٍ وَ ايْمُ اللَّهِ لَتَغْرَقَنَّ بَلْدَتُكُمْ حَتَّى كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مَسْجِدِهَا كَجُؤْجُؤِ سَفِينَةٍ أَوْ نَعَامَةٍ جَاثِمَةٍ وَ فِي رِوَايَةٍ كَجُؤْجُؤِ طَيْرٍ فِي لُجَّةِ بَحْرٍ وَ فِي رِوَايَةٍ أُخْرَى بِلَادُكُمْ أَنْتَنُ بِلَادِ اللَّهِ تُرْبَةً أَقْرَبُهَا مِنَ الْمَاءِ وَ أَبْعَدُهَا مِنَ السَّمَاءِ وَ بِهَا تِسْعَةُ أَعْشَارِ الشَّرِّ الْمُحْتَبَسُ فِيهَا بِذَنْبِهِ وَ الْخَارِجُ بِعَفْوِ اللَّهِ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى قَرْيَتِكُمْ هَذِهِ قَدْ طَبَّقَهَا الْمَاءُ حَتَّى مَا يُرَى مِنْهَا إِلَّا شُرَفُ الْمَسْجِدِ كَأَنَّهُ جُؤْجُؤُ طَيْرٍ فِي لُجَّةِ بَحْرٍ .
تم ایک عورت کی سپاہ اور ایک چوپائے کے تابع تھے. وہ بلبلا یا تو تم لبیک کہتے ہوئے بڑھے اور وہ زخمی ہوا تو تم بھاگ کھڑے ہوئے. تم پست اخلاق و عہد شکن ہو. تمہارے دین کا ظاہر کچھ ہے اور باطن کچھ تمہاری سر زمین کا پانی تک شور ہے تم میں اقامت کرنے والا گناہوں کے جال میں جکڑا ہوا ہے اور تم میں سے نکل جانیوالا اپنے پروردگار کی رحمت کو پالینے والا ہے . وہ (آنیوالا) منظر میری آنکھوں میں پھر رہا ہے . جبکہ تمہاری مسجدیوں نمایاں ہو گی . جس طرح کشتی کا سینہ در آنحالیکہ اللہ نے تمہارے شہر پر اس کے اوپر اور ا سکے نیچے سے عذاب بھیج دیا ہو گا. اور وہ اپنے رہنے والوں سمیت ڈوب چکا ہو گا.
(ایک اور روایت میں یوں ہے ) خدا کی قسم تمہارا شہر غرق ہو کر رہے گا. اس حد تک کہ اس کی مسجد کشتی کے اگلے حصے یا سینے کے بھل بیٹے ہوئے شتر مرغ کی طرح گویا مجھے نظر آرہی ہے . (ایک اور روایت میں اس طرح ہے جیسے پانی کے گہراؤ میں پرندے کا سینہ.
( ایک اور روایت میں اس طرح ہے ) تمہارا شہر اللہ کے سب شہروں سے مٹی کے لحاظ سے گندا اور بدبو دار ہے یہ (سمندر کے ) پانی سے قریب اور آسمان سے دور ہے . برائی کے دس حصوں میں سے نو حصے اس میں پائے جاتے ہیں جو اس میں آپہنچا وہ اپنے گناہوں میں اسیر ہے اور جو اس سے چل دیا? عضو الٰہی! اس کے شریک ُ حال رہا. گویا میں اپنی آنکھوں سے اس بستی کو دیکھ رہا ہوں کہ سیلاب سے اسے اس حد تک دھانپ لیا ہے کہ مسجد کے کنگروں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور وہ یوں معلوم ہوتے ہیں جیسے سمندر کے گہراؤ میں پرندے کا سینہ .
ابنِ میثم لکھتے ہیں کہ جب جنگ ُجمل ختم ہو گئی , تو اس کے تیسرے دن حضرت نے بصرہ جامع میں صبح کی نماز ادا کی اور نماز سے فارغ ہو کر مصلّٰی کی دائیں جانب دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے اور یہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اہل بصرہ کے پستی اخلاق اور ان کی سبکی عقل کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ بے سوچے سمجھے دوسروں کے بھڑکانے پر بھڑک اٹھے اور ایک عورت کے ہاتھوں میں اپنی کمان سونپ کر اونٹ کے پیچھے لگ گئے . اور بیعت کے بعد پیمان شکنی کی اور دو رخی کر کے اپنی پست کرداری و بدباطنی کا ثبوت دیا. اس خطبہ میں عورت سے مراد حضرت عائشہ اور چوپائے سے مرا دوہ اونٹ ہے کہ جس کی وجہ سے بصرہ کا معرکہ کا رزار جنگ جمل کے نام سے مشہور ہوا.
اس جنگ کی داغ بیل یوُں پڑی کہ جناب عائشہ باوجودیکہ حضرت عثمان کی زندگی میں ان کی سخت مخالفت کیا کرتی تھیں اور محاصرہ میں ان کو چھوڑ کر مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئی تھیں اور اس اعتبار سے ان کے قتل میں ان کا کافی ہاتھ تھا جس کی تفصیل آئندہ مناسب موقعوں پر آئے گی. مگر جب آپ نے مکہ سے مدینہ کی طرف پلٹتے ہوئے عبد اللہ ابن ابی سلمہ سے یہ سنا کہ عثمان کے بعد علی ابن ابی طالب خلیفہ تسلیم کر لئے گئے ہیں تو بے ساختہ آپ کی زبان سے نکلا » لیت ان ھٰذا انطبقت علی ھذہ ان لم الامر لصاحبک ردونی ردونی« اگر تمہارے ساتھی کی بیعت ہو گئی ہے تو کاش یہ آسمان زمین پر پھٹ پڑے مجھے اب مکہ ہی کی طرف جانے دو.« چنانچہ آپ نے مکہ کی واپسی کا تہیہّ کر لیا اور فرمانے لگیں . » قتل واللہ عثمان مظوما واللہ « خدا کی قسم عثمان مظلوم مارے گئے اور میں ان کے خون کا انتقام لے کر رہوں گی زمین و آسمان بدلا ہوا دیکھا تو حیرت سے کہا کہ یہ آپ کیا فرما رہی ہیں . آپ تو فرمایا کرتی تھیں . » اقتلوہٌ نعثلا فقد کفر « اس نعثل کو قتل کر دو یہ بے دین ہو گیا. آ پ نے فرمایا میں کیا سب ہی لوگ یہ کہا کرتے تھے مگر چھوڑ ان باتوں کو جو میں اب کہہ رہی ہوں وہ سنو . وہ زیادہ بہتر اورزیادہ قابل توجہ ہے. بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ پہلے تو ان سے توبہ کرنے کے لئے کہا جاتا ہے اور پھر اس کا موقع دیئے بغیر انہیں قتل بھی کر دیا جاتا ہے. اس پر ابن ابی سلمہ نے آپ سے مخاطب ہو کر یہ شعر پڑھے.
فمنک البدائ و منک الغیر و منک الریاح و منک المطر
»آپ ہی نے پہل کی اور آپ ہی نے (مخالفت کے ) طوفانِ بادو باراں اٹھائے اور اب آپ ہی اپنا رنگ بدل رہی ہیں .
و انت امرت بقتل الامام و قلت لنا انہ قد کفر
» آپ ہی نے خلیفہ کے قتل کا حکم دیا اور ہم سے کہا کہ وہ بے دین ہو گئے ہیں .«
فھبنا اطعناک فی قتلہ وقاتلہ عندنا من امر
» ہم نے مانا کہ آپ کا حکم بجا لاتے ہوئے یہ قتل ہمارے ہاتھوں سے ہوا مگر اصلی قاتل تو ہمارے نزدیک وہ ہے جس نے اس کا حکم دیا ہو.«
و لم یسقط السقف من فوقنا و لم ینکسف شمسا والقمر
» (سب کچھ ہو گیا مگر ) نہ آسمان ہمارے اوپر پھٹا, اور نہ چاند سورف کو گہن لگا.«
و قد بایع الناس ذا تدرئ یزیل الشبا و یقیم الصغر
» اور لوگوں نے اس کی بیعت کر لی جو قوت و شکوہ سے دشمنوں کو ہنکانے والا ہے . تلواروں کی دھاروں کو قریب پھٹکنے نہیں دیتا اور (گردن کشوں کے ) بل نکال دیتا ہے . «
و یلبس للحرب اتوا بھا وما من و فی قد غدر
» اور لڑائی کے پورے سازو سامان سے آراستہ رہتا ہے اور وفا کرنے والا غدار کے مانند نہیں ہو ا کرتا.
بہر حال جب آپ انتقامی جذبے کو لے کر مکہ پہنچیں , تو حضرت عثمان کو مظلومیت کے چرچے کر کے لوگوں کو ان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے ابھارنا شروع کیا. چنانچہ سب سے پہلے عبداللہ ابن عامر حضرمی نے اس آواز پر لبیک کہی جو حضرت عثمان کے عہد میں مکہ کا والی رہ چکا تھا اور ساتھ ہی مروان ابن حکم, سعید ابن عاص اور دوسرے بنی امیہ ہم نوا بن کر اٹھ کھڑے ہوئے . ادھر طلحہ ابنِ عبداللہ اور زبیر ابنِ عوام بھی مدینہ سے مکہ چلے آئے .یمن سے یعلی ابن منبہ جو دورِ عثمان میں وہاں کا حکمران تھا آپہنچا اور بصرہ کا سابق حکمران عبداللہ ابنِ عامر ابن کریز بھی پہنچ گیا اور آپس میں ایک دوسرے سے گٹھ جوڑ کر کے منصوبہ بندی میں لگ گئے جنگ تو بہر حال طے تھی مگر لازم گاہ کی تجویز میں فکریں لڑ رہی تھیں . حضرت عائشہ کی رائے تھے کہ مدینہ ہی کو تاخت و تاراج کا نشانہ بنایا جائے مگر کچھ لوگوں نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ اہل ُ مدینہ سے نپٹنا مشکل ہے اور کسی جگہ کو مرکز بنانا چاہئے آخر بڑی ردوکد اور سوچ بچار کے بعد طے پایا کہ بصرہ کی طرف بڑھنا چاہئے. وہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ہمارا ساتھ دے سکیں . چنانچہ عبداللہ ابن عامر کی بے پناہ دولت اور یعلی ابن منبہ کی چھ لاکھ درہم اور چھ سو اونٹوں کی پیش کش کے سہارے تین ہزار کی فوج ترتیب دے کر بصرہ کی طرف چل کھڑے ہوئے . راستے میں معمولی سی رکاوٹ پیدا ہوئی جس کی وجہ سے ام المومنین نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا. واقعہ یہ پیش آیا کہ ایک مقام پر آپ نے کتوں کے بھونکنے کی آواز سنی تو ساربان سے پوچھ لیا کہ اس جگہ کا کیا نام ہے . اس نے کہا کہ حواب پیغام سنتے ہی پیغمبر کی تنبیہ یاد آگئی کہ انہوں نے ایک دفعہ ازواج سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا لیت شعری ایتکن تنجھا کلاب الحواب . کچھ پتہ تو چلے کہ تم میں کون ہے جس پر حواَب کے کتے بھونکیں گے . « چنانچہ جب آپ کو معلوم ہوا کہ ازواج کے پردے میں میں ہی مخاطب تھی تو اونٹ کو تھپکی دے کر بٹھایا اور سفر کو ملتوی کر دینے کا ارادہ کیا مگر ساتھ والوں کی وقتی سیاست نے بِگڑے کام کو سنبھال لیا. عبداللہ ابن زبیر نے قسم کھا کریقین دلانے کی کوشش کی کہ یہ مقام حواَب نہیں . طلحہ نے بھی اس کی تائید کی اور مزید تشفی کے لئے وہاں کے پچاس آدمیوں کو بلوا کر اس پر گواہی بھی دلوادی. اب جہاں پوری قوم کا اجماع ہو وہاں ایک اکیلی رائے کیا بنا سکتی تھی , آخر انہی کی جیت ہوئی اور اُم المومنین پھر اسی جوش و خروش کے ساتھ آگے چل پڑیں .
جب یہ سپاہ بصرہ کے قریب پہنچی, تو اس میں ام المومنین کی سواری دیکھ کر لوگوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں . جاریہ ابنِ قدامہ نے آگے بڑھ کر کہا کہ اے ام المومنین قتل عثمان تو ایک مصیبت تھی ہی لیکن اس سے کہیں یہ بڑھ کر مصیبت ہے کہ آپ اس ملعون اونٹ پر بیٹھ کر نکل کھڑی ہوں اور اپنے ہاتھوں سے اپنا دامنِ عزت و حرمت چاک کر ڈالیں . بہتر یہی ہے کہ واپس پلٹ جائیں . مگر جب حواَب کا واقعہ عناں گیر نہ ہو سکا اور قرن فی بیوتکن اپنے گھروں میں ٹک کر بیٹھی رہو. کا حکم زنجیر پا نہ بن سکا تو ان آوازوں کا کیا اثر ہو سکتا تھا . چنانچہ آپ نے سنی ان سنی کر دی.
جب اس لشکر نے شہر میں داخل ہونا چاہاتو والی بصرہ عثمان ابنِ حنیف فوج کا ایک دستہ لے کر ان کی روک تھام کے لئے بڑھے . جب آمنا سامنا ہوا تو دونوں فریقوں نے تلواریں نیاموں سے نکال لیں اور ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے , جب دونوں طرف سے اچھی خاسی تعداد میں آدمی مارے گئے تو حضرت عائشہ نے اپنے اثر سے کام لے کر بیچ بچاؤ کرا دیا. اور فریقین اس قرارداد پر صلح کے لئے آمادہ ہو گئے کہ جب تک امیر المومنین علیہ السلام خود آنہیں جاتے . موجود نظم و نسق میں کوئی ترمیم نہ کیاجائے اور عثمان ابن حنیف اپنے منصب پر بحال رہیں . مگر دوہی دن گزرنے پائے تھے کہ انہوں نے سارے عہدو پیمان توڑ کر عثمان ابن حنیف پر شبخون مارا. اور چالیس بے گناہوں کو مار ڈالا اور عثمان ابن حنیف کو زدو کوب کرنے کے بعد ان کی داڑھی کا ایک ایک بال نوچ ڈالا اور اپنی حراست میں لیکر بند کر دیا پھر بیت المال پر حملہ کیا اور اسے لوٹنے کے ساتھ بیس آدمی قتل کر ڈالے اور پچاس آدمیوں کو گرفتار کرنے کے بعد تہ تیغ کیا, پھر غلہ کے انبار پر دھاوا بول دیا جس پر بصرہ کے ایک ممتاز سر برآوردہ بزرگ حکیم ابنِ جبلہ تڑپ اٹھے. اور اپنے آدمیوں کو لے کر وہاں پہنچ گئے اور عبداللہ ابن زبیر سے کہا کہ اس غلہ میں سے کچھ اہل ُ شہر کے لئے بھی رہنے دیا جائے آخر ظلم کی بھی کوئی حد ہوتی ہے تم نے ہر طرف خونریزی و غارت گری کا طوفان مچا رکھا ہے اور عثمان ابنِ حنیف کو قید میں ڈال دیا ہے . خدا کے لئے ان تباہ کاریوں سے باز آؤ. اور عثمان ابن حنیف کو چھوڑ و کیا تمہارے دلوں میں اللہ کا خوف نہیں ابنِ زبیر نے کہا کہ یہ خونِ عثمان کا بدلہ ہے . آپ نے کہا جن لوگوں کو قتل کیا گیا ہے کیا وہ عثمان کے قاتل تھے خدا کے قسم اگر میرے پاس اعوان و انصار ہوتے تو میں ان مسلمانوں کے خون کا بدلہ ضرور لیتا. جنہیں تم لوگوں نے ناحق مار ڈالا ہے . ابنِ زبیر نے جواب دیا کہ نہ تو ہم اس غلہ میں سے کچھ دیں گے اور نہ عثمان ابنِ حنیف کو چھوڑا جائے گا. آخر ان دونوں فریق میں لڑائی کی ٹھن گئی. مگر چند آدمی اتنی بڑی فوج سے کیونکر نپٹ سکتے تھے. نتیجہ یہ ہوا کہ حکیم ابنِ جبلہ اور ان کے بیٹے اشرف ابن حکیم اور ان کے بھائی رعل ابنِ جبلہ اور ان کے قبیلہ کے ستر آدمی مار ڈالے گئے. غرضیکہ ہر طرف مار دھاڑ اور لوٹ کھسوٹ کی گرم بازاری تھی, نہ کسی کی جان محفوط تھی اور نہ کسی کی عزت و مال کے بچاؤ کی کوئی صورت تھی.
جب امیر المومنین کو بصرہ کی روانگی کی اطلاع دی گئی تو آپ اس پیش قدمی کو روکنے کے لئے ایک فوج کے ساتھ نکل کھڑی ہوئے اس عالم میں کہ ستر بدر میں اور چار سو بیعت رضوان میں شریک ہونے والے صحابہ آپ کے ہمرکاب تھے. جب مقامِ ذی وقار پر پہنچ کر منزل کی تو حسن علیہ السلام اور عمار ابنِ یا سر کو کوُفہ روانہ کیا کہ وہاں کے لوگوں کو جہاد کی دعوت دیں . چنانچہ ابو موسیٰ اشعری کی رخنہ اندازیوں کے باوجود وہاں کے سات ہزار نبردآزمان کھڑے ہوئے اور امیر المومنین کی فوج میں ملے گئے. یہاں سے فوج کو مختلف سپہ سالاروں کی زیر قیادت ترتیب دے کر دشمن کے تعاقب میں چل پڑے. دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ جب یہ سپاہ بصرہ کے قریب پہنچی تو سب سے پہلے انصار کا ایک دستہ سامنے آیا جس کا پرچم ابو ایوب انصاری کے ہاتھ میں تھا. اس کے بعد ہزار سواروں کا ایک اور دستہ نمودار ہوا. جس کے سپہ سالار خزیمہ بن ثابت انصاری تھے. پھر ایک اور دستہ نظر پڑا جس کا عَلَم ابو قتادہ ابن ربعی اٹھائے ہوئے تھے. پھر ایک ہزار بوڑھے اور جوانوں کوجھمگھٹا دکھائی دیا. جن کی پیشانیوں پر سجدوں کے نشان چمک رہے تھے. چہرے پر خشیت الٰہی کے نقاب پڑے ہوئے تھے. یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا جلالِ کبریا کے سامنے موقف حساب میں کھڑے ہیں . ان کا سپہ سالار سبز گھوڑے پر سوار سفید لباس میں ملبوس اور سر پر عمامہ باندھے . بآواز بلند قرآن کی تلاوت کرتا جار ہا تھا یہ حضرت عمارا بن یاسر تھے . پھر ایک دستہ نظر آیا جس کا علم قیس ابنِ سعد ابن عبادہ کے ہاتھ میں تھا پھر ایک فوج دیکھنے میں آئی , جس کا قائد سفید لباس پہنے اور سر پر سیاہ عمامہ باندھے تھا اور خوش جمال اتنا کہ نگاہیں اس کے گرد طواف کر رہی تھی, یہ عبداللہ ابن عباس تھے. پھر اصحاب پیغمبر کا ایک دستہ آیا جس کے علمبر دار قثم ابن عباس تھے تو پھر چند دستوں کے گزرنے کے بعد ایک انبوهِ کثیر نظر آیا. جس میں نیزوں کی یہ کثرت تھی کہ ایک دوسرے میں گتھے جا رہے تھے اور رنگا رنگ کے پھریرے لہرا رہے تھے. ان میں ایک بلند و بالا علم امتیازی شان لئے ہوئے تھا اور اس کے پیچھے جلال و عظمت کے پہروں میں ایک سوار دکھائی دیا. جس کے بازو بھرے ہوئے اور نگاہیں زمین میں گڑی ہوئی تھیں , اور ہیبت ووقار کا یہ عالم تھا کہ کوئی نظر اٹھا کر نہ دیکھ سکتا تھا. یہ اسداللہ الغالب علی ابن ابی طالب تھے جن کے دائیں بائیں حسن اور حسین علیہما السلام تھے اور آگے آگے محمد ابن حنفیہ پرچم فتح و اقبال لئے ہوئے آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہے تھے اور پیچھے جوانانِ بنی ہاشم , اصحاب ُ بدر اور عبداللہ ابن جعفر ابن ابی طالب تھے. جب یہ لشکر مقام زاویہ پر پہنچا تو امیر المومنین گھوڑے سے نیچے اتر آئے اور چار رکعت نماز پڑھنے کے بعد خاک پر رخسار رکھ دیئے. اور جب سر اٹھایا تو زمین آنسوؤں سے تر تھی اور زبان پر یہ الفاظ تھے. اے آسمان و زمین اور عرشِ بریں کے پرور دگار ! یہ بصرہ ہے اس کی بھلائی سے ہمارا دامن بھر اور اس کے شر سے ہمیں اپنی پناہ میں رکھ.
پھر یہاں سے آگے بڑھ کر میدانِ جمل میں اُتر پڑے کہ جہاں حریف پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے. حضرت نے سب سے پہلے اپنے لشکر میں اعلان فرمایا کہ دیکھو کوئی کسی پر ہاتھ نہ اٹھائے اور نہ لڑائی میں پہل کرے. یہ فرما کر فوجِ مخالف کے سامنے آئے اور طلحہ و زبیر سے کہا کہ تم عائشہ سے خدا اور رسول کی قسم دے کر پوچھو کہ کیا میں خونِ عثمان سے بری الذمہ نہیں ہوں اور جو کچھ تم ان کے متعلق کہا کرتے تھے کیا میں بھی وہی کچھ کہا کرتا تھا اور کیا میں نے تم کو بیعت کے لیے مجبور کیا تھا یا تم نے خود اپنی رضامندی سے بیعت کی تھی? طلحہ تو ان باتوں پر چراغ پا ہونے لگے مگر زبیر نرم پڑ گئے, اور حضرت اس گفتگو کے بعد پلٹ آئے اور مسلم مجاشعی کو قرآن دے کر ان کی طرف بھیجا. تاکہ انہیں قرآن مجید کا فیصلہ سنائیں . مگر ان لوگوں نے دونوں کو تیروں کی ضد پر رکھ لیا اور اس مردِ با خدا کا جسم چھلنی کر دیا. پھر عمار یا سر تشریف لے گئے تاکہ انہیں سمجھائیں بھجائیں اور جنگ کے نتائج سے آگاہ کریں . مگر ان کی باتوں کا جواب بھی تیروں سے دیا گیا. ابھی تک امیرالمومنین علیہ السّلام نے ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں دی تھی جس کی وجہ سے دشمن کے حوصلے بڑھتے گئے اور وہ لگاتار تیر برساتے رہے. آخر چند جانبازوں کے دم توڑنے سے امیر ا لمومنین کی فوج میں بوکھلاہٹ سی پیدا ہوئی اور کچھ لوگ چند لاشیں لے کر آپ کے سامنے آئے اور کہا کہ یا امیر المومنین آپ ہمیں لڑنے کی اجازت نہیں دیتے اور وہ ہمیں چھلنی کئے جا رہے تھے. بھلا کب تک ہم اپنے سینوں کو خاموشی سے تیروں کا ہدف بناتے رہیں گے اور ان کی زیادتیوں پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے. اس موقعہ پر حضرت کے تیور بدلے, مگر ضبط وحلم سے کام لیا اور اسی حالت میں بے زرہ و سلاح اُٹھ کر دشمن کی فوج کے سامنے آئے اور پکار کر کہا کہ زبیر کہاں ہے . پہلے تو زبیر سامنے آنے سے ہچکچائے. مگر جب دیکھا کہ امیر المومنین کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے تو وہ سامنے بڑھ کر آئے. حضرت نے فرمایا کیوں اے زبیر تمہیں یاد ہے کہ ایک دفعہ رسول نے تم سے کہا تھا کہ ~0اے زبیر تم علی سے ایک دن جنگ کرو گے اور ظلم و زیادتی تمہاری طرف سے ہو گی. زبیر نے کہا کہ ہاں فرمایا تھا, تو آپ نے کہا پھر کیوں آئے ہو? انہوں نے کہا کہ ذہن سے اُتر گیا تھا اور اگر پہلے سے یاد آگیا ہوتا تو کبھی ادھر کا رخ نہ کرتا. فرمایا اچھا اب تو یاد آگیا ہے. انہوں نے کہا کہ ہاں اور یہ کہہ کر وہ سیدھے ام المومنین کے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ میں تو واپس جارہا ہوں ام المومنین نے کہا کہ اس کی وجہ? کہا ابوالحسن نے ایک بھولی ہوئی بات یاد دلا دی ہے. میں بے راہ ہو چکا تھا مگر اب راہ پر آگیا ہوں اور کسی قیمت پر بھی علی ابنِ ابی طالب سے نہیں لڑوں گا. اُم المومنین نے کہا کہ تم اولادِ عبدالمطلب کی تلواروں سے ڈر گئے ہو. انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں اور یہ کہہ کر باگیں موڑ لیں . بہر صورت یہی غنیمت ہے کہ ارشاد پیغمبر کا کچھ تو پاس و لحاظ کیا ورنہ مقامِ حو اب پر تو رسول کی بات یاد آجانے کے باوجود وقتی تاثر کے علاوہ کوئی دیر پا اثر نہیں لیا گیا تھا. بہر حال جب امیرالمومنین اس گفتگو کے بعد پلٹ کر آئے تو دیکھا کہ دشمنوں نے فوج کے داہنے اور بائیں حصّے پر حملہ کر دیا ہے. حضرت نے یہ دیکھا تو فرمایا کہ بس اب حجت تمام ہو چکی ہے. میرے بیٹے محمد کو بلاؤ, وہ حاضر ہوئے تو فرمایا بیٹا اب حملہ کردو محمد نے سر جھکاےا اور علم لےکر مےدان کی طرف بڑھے مگر تےر اس کثرت سے آ رہے تھے کہ ٹھک کر رک گئے امےر المومنےن نے یہ دیکھا تو پکار کر کہا کہ محمد آگے کیوں نہیں بڑھتے. کہا کہ کہ بابا تیروں کی بوچھاڑ میں آگے بڑھنے کا کوئی راستہ بھی ہو, بس اتنا توقف فرمائے کہ تیروں کا ذرا زور تھم جائے. فرمایا کہ نہیں تیروں اور سنانوں کے اندر گھس کر حملہ کرو. ابنِ حنفیہ کچھ آگے بڑھے. مگر تیر اندازوں نے اس طرح گھیرا ڈالا کہ قدم روک لینے پڑے. یہ دیکھ کر امیرالمومومنینعلیہ السّلام کی جبین پر شکن آئی اور آگے بڑھ کر تلوار کا دستہ محمد کی پشت پر مارا اور فرمایا:~0یہ مادری رگ کا اثر ہے. اور یہ کہہ کر علم ان کے ہاتھ سے لے لیا اور آستینوں کو چڑھا کر اس طرح حملہ کیا کہ ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک فوج دشمن میں تہلکہ مچ گیا جس صف کی طرف مڑے وہی صف خالی تھی اور دھر کا رُخ کیا لاشے تڑپتے ہوئے اور سر گھوڑے کے سموں سے لنڈھکتے ہوئے نظرآتے تھے.جب صفوں کو تہ و بالا کر کے پھر اپنے مرکز کی طرف پلٹ آئے تو ابنِ حنفیہ سے فرمایا کہ دیکھو بیٹا اس طرح سے جنگ کی جاتی ہے اور یہ کہہ کر پھر علم انہیں دیا. فرمایا کہ اب بڑھو, محمد انصار کا ایک د ستہ لےکر دشمن کی طرف بڑھے. دشمن بھی نیزے ہلاتے ہوئے اور برچھیاں تولتے ہوئے آگے نکل آئے مگر شیر دل باپ کے جرّی بیٹے نے سب پر ے الٹ دیئے اور دوسرے جانباز مجاہدوں نے بھی میدانِ کارِ زار کو لالہ زار بنا دیا اور کشتوں کے ڈھیر لگا دئےے.
ادھر سے بھی جاں نثاری کا حق پوری طرح ادا کیا جا رہا تھا. لاشوں پر لاشیں گر رہی تھیں . مگر اونٹ کے گرد پروانہ وار جان دیتے رہے اور بنی ضبہ کی تو یہ حالت تھی کہ اونت کی نکیل تھامنے پر ہاتھ کہنیوں سے کٹ رہے تھے اور سینے چھد رہے تھے. مگر زبانوں پر موت کا ترانہ گونجتا تھا.الموت احلی عند نا من العسل ~0------نحن بنی ضبةاصحاب الجمل
~0ہمارے نزدیک موت شہد سے زیادہ شیریں ہے. ہم ہیں جو بنوں ضبتہ اونٹ کے رکھوالئے~0.
نحن بنوالموت اذا المو ت نزل ننعی ابن عقان باطراف الاسل
~0ہم موت کے بیٹے ہیں جب موت آئے ہم ابنِ عقان کی کہانی نیزوں کی زبانی سناتے ہیں ~0
ردو اعلےنا شےخنا ثم بجل
~0ہمیں ہمارا سردار واپس پلٹا دو (ویسے کا ویسا) اور بس~0
ان بنی ضبہ کی پست کرداری اور دین سے بے خبری کا اندازہ اس ایک واقعہ سے ہو سکتا ہے جسے مدائنی نے بیان کیا ہے . وہ کہتے ہیں کہ میں نے بصرہ میں ایک شخص کا کان کٹا ہوا دیکھا تو اس سے اس کا سبب پوچھا اس نے بتایا کہ میں جمل کے میدان میں کشتوں کا منظر دیکھ رہا تھا کہ ایک زخمی نظر آیا جو کبھی سر اٹھا تا تھا اورکبھی زمین پر دے مارتا تھا. میں قریب ہوا تو اس کی زبان پر دو شعر تھے.
لقد اوردتنا حومةالموت امنا فلم تنصرف الاونحن ردائ
~0ہماری ماں نے ہمیں موت کے گہرے پانی میں دھکیل دیا اور اس وقت تک پلٹنے کا نام نہ لیا جب تک ہم جھک کر سیراب نہ ہوئیے.~0
اطعنا بنی تےم لشقوةجدنا وما تےم الا اعبدو امائ
~0ہم نے شومیِ قسمت سے بنی تیم کی اطاعت کر لی, حالانکہ ان کے مرد غلام اور ان کی عورتیں کنیزیں ہیں ~0
میں نے اس سے کہا کہ اب شعر پڑھنے کا کون سا موقع ہے. اللہ کو یاد کرو اور کلمہ شہادت پڑھو, یہ کہنا تھا کہ اُس نے مجھے غصہ کی نظروں سے دیکھا اور ایک سخت قسم کی گالی دے کر کہا کہ تو مجھ سے کہتا ہے کہ میں کلمہ پڑھوں اور آخری وقت میں ڈر جاؤں اور اب بے صبری کا مظاہرہ کروں یہ سن کر مجھے بڑی حیرت ہوئی اور مزید کچھ کہنا سننا مناسب نہ سمجھا اور پلٹنے کا ارادہ کیا. جب اُس نے جانے کے لیئے مجھے آمادہ پایا تو کہا کہ ٹہرو تمہاری خاطر اسے پڑھ لیتا ہوں . لیکن مجھے سکھا دو. میں اُسے کلمہ پڑھانے کے لیے قریب ہوا تو اس نے کہا اور قریب آؤ میں اور قریب ہوا تو اس نے میرا کان دانتوں میں دبا لیا اور اُس وقت تک نہ چھوڑا جب تک کہ اُسے جڑ سے نہ کاٹ لیا. میں نے سوچا کہ اس مرتے ہوئے پر کیا ہاتھ اٹھاؤں اسے لعن طعن کرتا ہوا پلٹنے کے لیے تیار ہوا تو اس نے کہا کہ ایک بات اور سن لو. میں نے کہا کہ وہ بھی سنا لو تاکہ تمہیں کوئی حسرت نہ رہ جائے. اس نے کہا کہ جب اپنی ماں کے پاس جانا اور وہ پوچھے کہ یہ کان کس نے کاٹا ہے تو کہنا کہ عمرو ابن ہلب ضبی نے کہ جو ایک ایسی عورت کے بھّرے میں آگیا تھا جو امیرالمومنین بننا چاہتی تھی. بہر صورت جب تلواروں کی کوندتی ہوئی بجلیوں نے ہزاروں کے خرمنِ ہستی کو بھسم کر دیا اور بنی ازدو بنی ضبہ کے سینکڑوں آدمی نکیل پکڑنے پر کٹ مرے تو حضرت نے فرمایا ~0اس اعقرواالجمل فانہ شےطان ,,اونٹ کو پے کرو. یہ شیطان ہے~0 اور یہ کہہ کر ایسا سخت حملہ کیا کہ چاروں طرف سے الامان والحفیظ کی صدائیں آنے لگیں . جب اونٹ کے قریب پہنچے تو اشتر نخعی سے کہا کہ دیکھتے کیا ہو اسے پے کرو. چنانچہ اشتر نے ایسا بھر پور ہاتھ چلایا کہ وہ بلبلاتا ہوا سینہ کے بل زمین پر گرا, اور اونٹ کا گرنا تھا کہ فوجِ مخالف میں بھگدڑ مچ گئی اور جنابِ عائشہ کا ہووج یکہ و تنہا رہ گیا. اصحابِ امیرالمومنینعلیہ السّلام نے بڑ ھ کر سنبھالا اور محمد ابنِ ابی بکر نے امیرا لمومنینعلیہ السّلام کے حکم سے حضرت عائشہ کو صفیہ بنت حارث کے مکان پر پہنچا دیا. 01 جمادی الثانیہ 63 ھئ کو یہ معرکہ ظہر کے وقت شروع ہوا اور اسی دن شام کو ختم ہو گیا. اس میں امیرالمومنین کے بائیس ہزار کے لشکر میں سے سترہ ہزار, ایک ہزار ستر اور دوسری روائت کی بنا پر پانچ سو افراد شہید ہوئے اور ام المومنین کے تیس ہزار کے لشکر میں سے سترة ہزار, دوسرے قول کی بنا پر بیس ہزار کام آئے اور پیغمبر کے اس ارشاد کی پوری تصدیق ہو گئی کہ ~0,,لن ےفلح قوم ولوا امرھم امراة ~0و ہ قوم کبھی کامرانی کا منہ نہیں دیکھ سکتی, جس کی قیادت عورت کے ہاتھ میں ہو~0
No comments:
Post a Comment