- و من كلام له ( عليه السلام ) في معنى قتل عثمان و هو حكم له على عثمان و عليه و على الناس بما فعلوا و براءة له من دمه :
لَوْ أَمَرْتُ بِهِ لَكُنْتُ قَاتِلًا أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ لَكُنْتُ نَاصِراً غَيْرَ أَنَّ مَنْ نَصَرَهُ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَقُولَ خَذَلَهُ مَنْ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ وَ مَنْ خَذَلَهُ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَقُولَ نَصَرَهُ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي وَ أَنَا جَامِعٌ لَكُمْ أَمْرَهُ اسْتَأْثَرَ فَأَسَاءَ الْأَثَرَةَ وَ جَزِعْتُمْ فَأَسَأْتُمُ الْجَزَعَ وَ لِلَّهِ حُكْمٌ وَاقِعٌ فِي الْمُسْتَأْثِرِ وَ الْجَازِعِ .
خطبہ 30 قتلِ عثمان کی حقیقت کا انکشاف کرتے ہوئے فرمایا:.
اگر میں ان کے قتل کا حکم دیتا, تو البتہ ان کا قاتل ٹھہرتا اور اگران کے قتل سے (دوسروں کو ) روکتا تو ان کا معاون و مدد گار ہوتا (میں بالکل غیر جانبدار رہا) لیکن حالات ایسے تھے کہ جن لوگوں نے ان کی نصرت و امداد کی, وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ ہم ان کی نصرت نہ کرنے والوں سے بہتر ہیں , اور جن لوگوں نے ان کی نصرت سے ہاتھ اٹھا لیا وہ نہیں خیال کرتے کہ ان کی مدد کرنے والے ہم سے بہتر و برتر ہیں . میں حقیقت امر کو تم سے بیان کئے دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے (اپنے عزیزوں کی)طرف دار کی, تو طرف داری بُری طرح کی اور تم گھبرا گئے , تو بُری طرح گھبرا گئے اور (ان دونوں فریق) بے جا طرف داری کرنے والے, گھبرا اٹھنے والے کے درمیان اصل فیصلہ کرنے والا اللہ ہے .
حضرت عثمان اسلامی دور کے پہلے اموی خلیفہ ہیں جو یکم محرم 42 ھئ میں ستر برس کی عمر میں مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے . اور بار برس تک مسلمانوں کے سیا ہ سفید کے مالک بنے رہنے کے بعد انہی کے ہاتھوں سے 81 ذی الحجہ 53ھئ میں قتل ہو کر حشِ کوکب میں دفن ہوئے .
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا کہ حضرت عثمان کا قتل ان کی کمزوریوں اور ان کے عمال کے سیاہ کارناموں کا نتیجہ تھا. ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ مسلمان متفقہ طور پر ان کے قتل پر آمادہ اور ان کی جان لینے کے درپے ہو جاتے اور ان کے گھر کے چند آدمیوں کے علاوہ کوئی ان کی حمایت و مدافعت کے لئے کھڑا نہ ہوتا. مسلمان یقینا ان کے سنِ وسال ان کی بزرگی و وقار اور شرفِ مصاحبت کا پاس و لحاظ کرتے مگر ان کے طور طریقوں نے فضا کو اس طرح بگاڑ رکھا تھا کہ کوئی ان کی ہمدردی و پاسداری کے لئے آمادہ نظر نہ آتا تھا. پیغمبر کے برگزیدہ صحابیوں پر جو ظلم و ستم ڈھایا گیا تھا, اس نے قبائل عرب میں ان کے خلاف غم و غصہ کی لہر دوڑ رکھی تھی. ہر شخص پیچ و تاب کھا رہا تھا اور ان کی خود سری و بے راہروی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا. چنانچہ حضرت ابو ذر کی توہین و تذلیل اور جلا وطنی کے سبب سے بنی غفار اور ان کے حلیف قبائل , عبداللہ ابن مسعود کو بے دردی سے پٹوانے کی وجہ سے بنی ہذیل اور ان کے حلیف بنی زہرہ , عمار ابنِ یاسر کی پسلیاں توڑ دینے کے باعث بنی مخزوم اور ان کے حلیف قبیلے اور محمد ابنِ ابی بکر کے قتل کا سروسامان کرنے کی وجہ سے بنی تیم کے دلوں میں غصہ کاایک فوفان موجزن تھا. دوسرے شہروں کے مسلمان بھی ان کے عمال کے ہاتھوں سے نالاں تھے کہ جو دولت کی سرشاریوں اور بارہ عشرت کی سرمستیوں میں جو چاہتے تھے کہ گزرے تھے , اور جسے چاہتے تھے پامال کر کے رکھ دیتے تھے, نہ انہیں مرکز کی طرف سے عتاب کا ڈر تھا, اور نہ کسی باز پرُس کا اندیشہ ,. لوگ ان کے پنجہ استبداد سے نکلنے کے لئے پھڑ پھڑاتے تھے مگر کوئی ان کے کرب و اذیت کی صدائیں سننے کے لئے آمادہ نہ ہوتا تھا. نفرت کے جذبات اُبھر رہے تھے, مگر انہیں دبانے کی کوئی فکر نہ کی جاتی تھی, صحابہ بھی ان سے بددل ہو چکے تھے. کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے , کہ امنِ عالم تباہ , نظم و نسق تہ و بالال اور اسلامی خدو خال مسخ کئے جار ہے ہیں . نادار و فاقہ کش سُوکھے ٹکڑوں کو ترس رہے ہیں اور بنی امیّہ کے ہاں ہن برس رہا ہے . خلافت شکم صری کا ذریعہ اور سرمایہ اندوزی کا وسیلہ بن کر رہ گئی ہے . لہذا وہ بھی ان کے قتل کے لئے زمین ہموار کرنے میں کسی سے پیچھے نہ تھے . بلکہ انہی کے خطوط و پیغامات کی بنا پر کوفہ , بصرہ اور مصر کے لوگ مدینہ میں آ جمع ہوئے تھے . چنانچہ اہل مدینہ کے اس رویہ کو دیکھتے ہوئے حضرت عثمان نے معاویہ کو تحریر کیا کہ :.
واضح ہو کہ اہل مدینہ کافر ہو گئے ہیں اور اطاعت سے منہ پھیر لیا ہے اور بیعت توڑ ڈالی ہے . تم شام کے لڑنے بھڑنے والوں کو تندو تیز سواریوں کو میری طرف بھیجو.
مُعاویہ نے اس خط کے پہنچنے پر جو طرف عمل اختیار کیا , اس سے بھی صحابہ کی حالت پر روشنی پڑتی ہے . چنانچہ طبری نے اس کے بعد لکھا ہے کہ :.
جب معاویہ کو یہ خط ملا, تو اس نے توقف کیا اور اصحابِ پیغمبر کی کھلم کھلا مخالفت کو بُرا جانا چونکہ اسے معلوم ہو چکا تھا کہ وہ ان کی مخالفت پر یکجہتی سے متفق ہیں .
ان واقعات کے پیش ُ نظر حضرت عثمان کے قتل کو وقتی جوش اور ہنگامی جذبہ کا نتیجہ قرار دے کر چند بلوائیوں کے سر تھوپ دینا, حقیقت پر پردہ ڈلانا ہے . جبکہ ان کی مخلافت کے تمام عناصر مدینہ ہی میں موجود تھے اور باہر سے آنے والے تو ان کی آواز پر اپنے دکھ درد کی چارہ جوئی کے لئے جمع ہوئے تھے. جن کا مقصد صرف اصلاحِ حال تھا. نہ قتل و خونریزی . اگر ان کی داد فریاد سُن لی جاتی , تو اس خون خرابے تک کبھی نوبت نہ پہنچتی . مگر ہوا کہ کہ جب اہلِ مصر حضرت عثمان کے دُودھ شریک بھائی عبداللہ ابن سعد ابن ابی سرح کے ظلم و تشدد سے تنگ آ کر مدینہ کی طرف بڑھے اور شہر کے قریب وادی ذی خشب میں پڑاؤ ڈال دیا. تو ایک شخص کے ہاتھ خط بھیج کر حضرت عثمان سے مطالبہ کیا کہ ان کے مظالم مٹائے جائیں , موجودہ روش کو بدلا جائے . اور آئندہ کے لئے توبہ کی جائے . مگر آپ نے جواب دینے کی بجائے . اس شخص کو گھر سے نکلوا دیااور ان کے مطالبہ کو قابلِ امتنا نہ سمجھا, جس پر وہ لوگ اس غرور طغیان کے خلاف آواز بلند کرنے کے لئے شہر کے اندر داخل ہوئے اور لوگوں سے حکومت کی ستمرانیوں کے ساتھ اس طرزِ عمل کا بھی شکوہ کیا. ادھر کوفہ اور بصرہ کے بھی سینکڑوں آدمی اپنے شکوے شکایات لے کر مدینہ آئے ہوئے تھے . جو ان سے ہمنوا ہو کر اہلِ مدینہ کی پشت پناہی پر آگے بڑھے, اور حضرت عثمان کو پابندِ مسکن بنا دیا. مگر ان کے لئے مسجد میں آنے جانے کے لئے کوئی رکاوٹ نہ تھی. لیکن انہوں نے پہلے ہی جمعہ میں جو خطبہ دیا. اس میں ان لوگوں کو سخت الفاط میں بُرا بھلا کہا اور ملعون تک قرار دیا. جس پر لوگوں نے مشتعل ہر کر ان پر سنگریزے پھینکے . جس پر بے حال ہر کر منبر سے نیچے گر پڑے اور چند دنوں کے بعد ان کے مسجد میں آنے جانے پر پابندی عائد کر دی گئی.
جب حضرت عثمان نے اس حد تک حالات بگڑے ہوئے دیکھے, تو بڑی لجاجت سے امیر المومنین علیہ السّلام سے خواہش کی کہ وہ ان کے لئے چھٹکارے کی کوئی سبیل کریں اور جس طرح بن پڑے ان لوگوں کو متفرق کر دیں . حضرت نے فرمایا کہ میں کس قرار داد پر انہیں جانے کے لیے کہوں جب کہ ان کے مطالباتحق بجانب ہیں . حضرت عثمان نے کہا کہ میں اس کا اختیار آپ کو دیتا ہوں , آپ ان سے جو بھی معاہدہ کریں گے. میں اس کا پابند رہوں گا. چنانچہ حضرت مصریوں سے جا کر ملے اور ان سے بات چیت کی. اور وہ اس شرط پر واپس پلٹ جانے کے لئے آمادہ ہو گئے کہ تمام مظالم مٹائے جائیں . اور ابن ابی سرح کو معزول کر کے اس کی جگہ محمد ابن ابی بکر کو مقرر کیا جائے. امیرالمومنین نے پلٹ کر حضرت عثمان کے سامنے ان کا مطالبہ رکھا جسے انہوں نے بغیر کسی پس وپیش کے مان لیا اور یہ کہا کہ ان تمام مظالم سے عہدہ برآ ہونے کے لئے کچھ مہلت ہونا چاہیئے. حضرت نے فرمایا جو چیزیں مدینہ سے متعلق ہیں اُن میں مہلت کے کوئی معنی نہیں . البتہ دوسری جگہوں کے لئے اتنا وقفہ دیا جا سکتا ہے کہ تمہارا پیغام وہاں تک پہنچ سکے. انہوں نے کہا کہ نہیں مدینہ کے لئے بھی تین دن کی مہلت ہونی چاہیئے . حضرت نے مصریوں سے بات چیت کرنے کے بعد اسے بھی منظور کر لیا. اور ان کی تمام ذمہ داری ذی خشب میں آکر ٹھہر گئے, اور یہ معاملہ رفع دفع ہو گیا. اس واقعہ کے دوسرے دن مردان نے حضرت سے کہا کہ خیر یہ لوگ تو چلتے بنے , مگر دوسرے شہروں سے آنے والوں کی روک تھام کے لئے آپ ایک بیان دیں تاکہ وہ ادھر کا رخ نہ کریں اور اپنی اپنی جگہ پر مطمن ہو کر بیٹھے رہیں . اور وہ بیان یہ ہو کہ کچھ لوگ مصر کے جھوٹ سچ باتیں سن کر مدینہ میں جمع ہو گئے تھے اور جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ وہ جو سنتے تھے غلط تھا , تو وہ مطمئن ہو کر واپس چلے گئے ہیں . حضرت عثمان ایسا صریح جھوٹ بولنا نہ چاہتے تھے. مگر مروان نے کچھ ایسا چکمہ دیا کہ وہ آمادہ ہو گئے او رمسجد نبوی میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:.
ان مصریوں کو اپنے خلیفہ کے متعلق کچھ خبریں ملی تھیں اور جب انہیں یقین ہو گیا کہ وہ سب غلط اور بے سرو پا تھیں تو وہ اپنے شہروں کی طرف پلٹ گئے .
یہ کہنا تھا کہ مسجد میں ایک ہُلڑ مچ گیا اور لوگوں نے پکار پکار کر کہنا شروع کیا کہ اے عثمان !توبہ کرو, اللہ سے ڈرو, یہ کیا جھوٹ کہہ رہے ہو. حضرت عثمان اس ہڑبونگ میں سٹپٹا کر رہ گئے اور توبہ کرتے ہی بنی . چنانچہ قبلہ کی طرف رخ کر کے اللہ کی بارگاہ میں گڑ گڑا ئے اور پھر گھر پلٹ آئے .
امیر المومنین علیہ السّلام نے غالباً اسی واقعہ کے بعد حضرت عثمان کو یہ مشورہ دیا کہ تم سابقہ لغزشوں سے کھلم کھلا توبہ کرو, تاکہ یہ شورشیں ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں . ورنہ کل کو کہیں اور کے لوگ آ گئے تو پھر مجھے چمٹو گے کہ تمہاری گلو خلاصی کراؤں . چنانچہ انہوں نے مسجدِ نبوی میں خطبہ دیا. جس میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے توبہ کی اور آیندہ محتاط رہنے کا عہد کیا. اور لوگوں سے کہا کہ جب میں منبر سے اُتروں تو تمہارے نمائندے میرے گھر پر آئیں . میں تمہاری شکایتوں کا اذالہ کروں گا اور تمہارے مطالبے پورے کروں گا. جس پر لوگوں نے آپ کے اس قدام کو بہت سراہا اور بڑی حد تک دلی کدورتوں کو آنسوؤں سے دھو ڈالا. یہاں سے فارغ ہو کر جب دولت سرا پر پہنچے , تو مروان نے کچھ کہنے کی اجازت چاہی . مگر حضرت عثمان کی زوجہ نائلہ بنت فرافصہ مانع ہوئیں اور مروان سے مخاطب ہر کر کہا کہ خدا کے لئے تم چپ رہو, تم کوئی ایسی ہی بات کہو گے جو ان کے لئے موت کا پیش خیمہ بن کر رہے . مروان نے بگڑ کر کہا کہ تمہیں ان معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں . تم اس کی بیٹی ہو جسے مرتے دم تک وضو کرنا بھی نہ آیا. نائلہ نے جھلاّ کر کہا کہ تم غلط کہتے ہو اور بہتان باندھتے ہو میرے باپ کو کچھ کہنے سے پہلے ذرا اپنے باپ کا حلیہ بھی دیکھ لیا ہوتا. اگر ان بڑے میاں کا خیال نہ ہوتا تو پھر وہ سناتی کہ لوگ کانوں پر ہاتھ رکھتے اور ہر بات میں میری ہاں میں ہاں ملاتے . حضرت عثمان نے جب بات بڑھتے دیکھی , تو انہیں روک دیا. اور مروان سے کہا کہ کہو کیا کہنا چاہتے ہو. مروان نے کہا کہ یہ آپ مسجد میں کیا کہہ آئے ہیں اور کیسی توبہ کر آئے ہیں . میرے نزدیک تو گناہ پر اڑے رہنا آپ کی اس توبہ سے ہزار درجہ بہتر تھا. کیونکہ گناہ خواہ کس حد تک بڑھ جائیں , ان کے لئے توبہ کی گنجائش رہتی ہے . اور مارے باندھے کی توبہ کوئی توبہ نہیں ہوتی . کہنے کو تو آپ کہہ آئے ہیں . مگر اس صلائے عام کا نتیجہ دیکھ لیجئے کہ دروازے پر لوگوں کے ٹھٹھ لگے ہوئے ہیں . تو اب آگے بڑھیئے اور پورا کیجئے ان کے مطالبات کو حضرت عثمان نے کہا کہ خیر میں جو کہہ آیا سو کہ آیا. اب تم ان لوگوں سے نپٹ لو. میرے بس کا یہ روگ نہیں کہ میں انہیں نپٹاؤں . چنانچہ مروان آپ کا ایما ئ پا کر باہر آیا او رلوگوں سے خطاب کر کے کہا کہ تم لوگ یہاں کیوں جمع ہو ? کیا دھاوا بولنے کا ارادہ ہے یا لُوٹ مار کا قصد ہے ? یاد رکھو کہ تم بآسانی ہمارے ہاتھوں سے اقتدار نہیں چھین سکتے اور یہ خیال دلوں سے نکال ڈالو کہ تم ہمیں دبا لو گے . ہم کسی سے دب کر رہنے والے نہیں ہیں . یہاں سے مُنہ کالا کرو , خدا تمہیں رسوا و ذلیل کرے.
لوگوں نے یہ بگڑے ہوئے تیور اور بدلا ہوا نقشہ دیکھا تو غیظ و غضب میں بھرے ہوئے وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور سیدھے امیرالمومنین کے ہاں پہنچے , اور انہیں ساری روئیداد سنائی جسے سن کر حضرت مارے غصے کے پیچ و تاب کھانے لگے اور اسی وقت اٹھ کر عثمان کے ہاں گے اور ان سے کہا » وہ سبحان اللہ « ! کیا مسلمانوں کی درگت بنائی ہے . تم نے ایک بے دین و بدکردار کی خاطر دین سے بھی ہاتھ اٹھا لیا اور عقل کو بھی جواب دے دیا. آخر تمہیں کچھ تو اپنے وعدے کا پاس و لحاظ ہونا چاہیئے تھا. یہ کیا مردان کے اشارے پر آنکھ بند رک کے چل پڑو. یاد رکھو کہ وہ تمہیں ایسے اندھے کنوئیں میں پھینکے گا. کہ پھر اس سے نکل نہ سکو گے. تم تو مردان کی سواری بن گئے ہو کہ وہ جس طرح چاہے تم پر سواری گانٹھ لے , اور جس غلط راہ پر چاہے تمہیں ڈال دے . آئندہ سے میں تمہاری معاملہ میں کوئی نہ دوں گا اور نہ لوگوں سے کچھ کہوں سنوں گا. اب تم جانو اور تمہارا کام.
اتنا کہہ سن کر حضرت تو واپس ہوئے , اور نائلہ کی بن آئی. انہوں نے حضرت عثمان سے کہا کہ مَیں کہتی تھی کہ مروان سے پیچھا چھڑا ئیے ورنہ وہ ایسا کلنک کا ٹیکہ لگائے گا کہ مٹائے نہ مٹے گا, بھلا اس کے کہنے پر کیا چلنا کہ جو لوگوں میں بے آبرو اور نظروں سے گرا ہوا ہو. علی علیہ السّلام ابن ابی طالب کو منائیے ورنہ یاد رکھئے کہ بگڑے ہوئے حالات کا بنانا نہ آپ کے بس میں ہے اور نہ مروان کے اختیار میں ہے . حضرت عثمان اس سے متاثر ہوئے اور امیر المومنین کے پیچھے آدمی بھیجا. مگر حضرت نے ملنے سے صاف انکار کر دیا. خود حضرت عثمان کے گرد گو محاصرہ نہ تھا. مگر جبا زنجیر پا تھی, کون سا منہ لے کر گھر سے باہر نکلتے .مگر نکلے بغیر کوئی چارہ بھی نہ تھا. لہذا رات کے پردے میں چپکے سے نکلے اور امیر المومنین کے ہا ں جا پہنچے اور اپنی بے بسی اور لاچاری کا رونا رویا. عذر معذرت بھی کی, وعدے کی پابندی کا یقین بھی دلایا. مگر حضرت نے فرمایا کہ تم مسجد نبوی میں منبر رسول پر کھڑے ہو کر مسلمانوں کے بھرے مجمع میں ایک وعدہ کرتے ہو, تو اس کا ایفا یوں ہوتا ہے کہجب لوگ تمہارے ہاں پہنچتے ہیں تو انہیں بُرا بھلا کہا جاتا ہے اور گالیاں تک دی جاتی ہیں . جب تمہارے قول و قرار کی یہ صورت ہے جسے دنیا دیکھ چکی ہے تو کس بھروسے پر میں آئندہ کےلئے تمہاری کسی بات پر اعتماد کر لوں . اب مجھ سے کوئی توقع نہ رکھو. میں تمہاری طرف سے کوئی ذمہ داری اپنے سر پر لینے کے لئے تیار نہیں . راستے تمہارے سامنے کھلے ہوئے ہیں جو راستہ چاہو اختیار کرو, اور جس دھڑے پر چاہو چلو. اس بات چیت کے بعد حضرت عثمان پلٹ آئے اور الٹا امیرالمومنین کو موردِ الزام ٹھہرانا شروع کر دیا کہ ان کی شہ پر یہ ہنگامے اٹھ رہے ہیں , اور سب کچھ کر سکنے کے باوجود کچھ نہیں کرتے.
ادھر توبہ کا جو حشر سو ہوا. اب دوسری طرف کی سنیئے کہ جب محمد ابن ابی بکر حجاز کی سرحد طے کر کے دریائے قلزم کے کنارے مقامِ ایلہ تک پہنچے تو لوگوں کی نظریں ایک ناقہ سوار پر پڑیں جو اپنی سواری کو اس طرح بگٹٹ دوڑائے لئے جا رہا تھا, جیسے دشمن اس کے تعاقب میں ہوں . ان لوگوں کو اس پر کچھ شبہ ہوا, تو اسے بلا کر پوچھا کہ تم کون ہو? اس نے کہا کہ میں حضرت عثمان کا غلام ہوں . پوچھا کہ کہاں کا ارادہ ہے ? اس نے کہا کہ مصر کا . پوچھا کہ کس کے پاس جا رہے ہو? اس نے کہا کہ میں والی مصر کے پاس. لوگوں نے کہا کہ والی مصر تو ہمارے ہمراہ ہیں . تم کس کے پاس جا رہے ہو? اس نے کہا کہ مجھے ابنِ ابی سرح کے پاس جانا ہے . لوگوں نے کہا کہ تمہارے پاس کوئی خط وغیرہ بھی ہے ? اس نے کہا کہ نہیں . پوچھا کہ کس مقصد سے جار ہے ہو? اس نے کہا کہ یہ نہیں معلوم . لوگوں نے کہا کہ جامہ تلاشی لینا چاہیئے . چنانچہ تلاشی لی گئی مگر اس سے کوئی چیز برآمد نہ ہوئی . کنانہ بن بشر نے کہا, کہ ذرا اس کا مشکیزہ تو دیکھو. لوگوں نے کہا کہ چھوڑو, بھلا پانی میں خط کہاں ہو. سکتا ہے ! کنانہ نے کہا کہ تم کیا جانو کہ یہ لوگ کیا کیا چالیں چلا کرتے ہیں . چنانچہ مشکیزہ کھول کر دیکھا گیا تو اس میں سیسے کی ایک نلکی تھی , جس میں خط رکھا ہوا تھا. جب کھول کر پڑا گیا تو فرمانِ خلافت یہ تھاکہ » جب محمد ابنِ ابی بکر اپنے ہمراہیوں کے ساتھ تمہارے پاس پہنچے, تو ان میں سے فلاں کو قتل کرو, فلاں کے ہاتھ کاٹو اور فلاں کو جیل میں ڈالو, اور اپنے عہدہ پر برقرار رہو. یہ پڑھ کر سب پر سناٹا چھا گیا , اور حیرت سے ایک دوسرے کامنہ تکنے لگے .
بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ ابو العجبی است
اب آگے بڑھنا موت کے منہ میں جانا تھا, چنانچہ اس غلام کو ساتھ لے کر سب مدینہ کی طرف. پلٹ پڑے اور وہاں پہنچ کر وہ خط صحابہ کے مجمع کے سامنے رکھ دیا. اس واقعہ کو جس نے سُنا, انگشت بدنداں ہو کر رہ گیا اور وکئی ایسا شخص نہ تھا کہ جو حضرت عثمان کو بُرا نہ کہہ رہا ہو. اس کے بعد چند صحابہ ان لوگوں کے ہمراہ حضرت عثمان کے ہاں پہنچے اور وہ خط ان کے سامنے رکھ دیا اور پوچھا کہ اس خط پر مُہر کس کی ہے ? کہا کہ میری. پوچھا کہ یہ تحریر کس کی ہے ? کہا کہ میرے کاتب کی. پوچھا یہ غلام کس کا ہے ? کہا کہ میرا. پوچھا کہ یہ سواری کس کی ہے ? کہا کہ حکومت کی. پوچھا کہ یہ بھیجا کس نے ہے ? فرمایا کہ اس کا مجھے علم نہیں . لوگوں نے کہا کہ سبحان اللہ ! سب کچھ آپ کا اور آپ کو یہ تک پتہ نہ چلنے پائے کہ یہ کس نے بھیجا ہے ! جب آپ اتنے ہی بے بس ہیں , تو چھوڑیئے خلافت کو اور الگ ہو جئے تاکہ کوئی ایسا شخص آئے جو مسلمانوں کے امور کی دیکھ بھال کر سکتا ہو. انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ میں اس پیرہن کو اتار دوں جو اللہ نے مجھے پہنایا ہے . البتہ توبہ کیے لیتا ہوں . لوگوں نے کہا کہ توبہ کی بھلی کہی. اس کی مٹی تو اسی دن خراب ہو گئی تھی جب آپ کے دروازے پر مروان آپ کی ترجمانی کررہا تھا اور رہی سہی کسر اس خط نے نکال دی ہے . اب ہم ان بھرّوں میں آنے والے نہیں ہیں . خلافت کو چھوڑیئے اگر آپ کے بھائی بند ہمارے سدّ ُ ہوئے تو ہم انہیں روکیں گے اور اگر لڑنے کے لئے آمادہ ہوئے تو ہم بھی لڑیں گے . نہ ہمارے ہاتھ شَل ہیں اور نہ ہماری تلواریں کُند ہیں . اگر آپ مسلمانوں کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں اور انصاف کے علمبردار جانوں سے کھیلنا چاہ رہا ہے . مگر آپ نے اس مطالبہ کو ٹھکر ا دیا او رمروان کو ان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا جس پر لوگوں نے کہا کہ پھر یہ خط بھی آپ ہی کے حکم سے لکھا گیا ہے .
بہر صورت سدھرے ہوئے حالات پھر سے بگڑ گئے , اور انہیں بگڑنا ہی چاہیئے تھا. کیونکہ مطلوبہ مدّت کے گزر جانے کے باوجود ہر چیز جوں کی توں تھی اور رائی برابر بھی ادھر سے اُدھر نہ ہوئی تھی. چنانچہ توبہ کا انجام دیکھنے کے لئے وادی خشب میں جو لوگ ٹھہرے ہوئے تھے , وہ بھی پھر سیلاب کی طرح بڑھے , اور مدینہ کی گلیوں میں پھیل گئے اور ہر طرف سے ناکہ بندی کر کے ان کے گھر کا محاصرہ کر لیا.
انہی محاصرہ کے دنوں میں پیغمبر کے ایک صحابی نیاز ابنِ عیاض نے حضرت عثمان سے بات چیت کرنا چاہی اور ان کے ہاں پہنچ کر انہیں پکارا . جب انہوں نے اوپر سے جھانک کر دیکھا تو آپ نے کہا کہ اے عثمان ! خدا کے لئے اس خلافت سے دست بردار ہو جاؤ, اور مسلمانوں کو اس خون خرابے سے بچاؤ. ابھی وہ بات کر ہی رہے تھے کہ حضرت عثمان کے آدمیوں میں سے ایک نے انہیں تیر کا نشانہ بنا کر جان سے مار ڈالا. جس پر لوگ بھڑک اٹھے اور پکار کر کہا کہ نیاز کا قاتل ہمارے حوالہ کرو مگر حضرت عثمان نے فرمایا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ میں پانے ایک مددگار کو تمہارے حوالے کر دوں . اس سینہ زوری نے آگ میں ہوا کا کام کیا اور لوگوں نے جوش میں آکر ان کے گھر کے دروازے کو آگ لگا دی. اور اندر گھسنے کے لئے آگے بڑھے کہ مروان ابن حکم, سعید ابن عاص اور مغیرہ ابنِ اخنس اپنے اپنے جتھّوں کے ہمراہ محاصرہ کرنے والوں پر ٹوٹ پڑے اور دروازے پر کشت و خون شروع ہو گیا . لوگ گھر کے اندر گھسنا چاہتے تھے. مگر انہیں دھکیل دیا جاتا تھا. اتنے میں عمرو ابن حزم انصاری نے کہ جن کا مکان حضرت عثمان کے مکان سے متصل تھا. اپنے گھر کا دروازہ کھول دیا اور للکار کر کہا کہ آؤ ادھر سے بڑھو. چنانچہ محاصرہ کرنے والے اس مکان کے ذریعہ کا شانہ خلافت کی چھت پر پہنچ گئے اوروہاں سے گھر کے صحن میں اتُر کر تلواریں سونت لیں . ابھی ایک آدھ جھڑپ ہی ہونے پائی تھی کہ حضرت عثمان کے گھر والوں کے علاوہ ان کے ہوا خواہ اور بنی امّیہ مدینہ کی گلیوں میں بھاگ کھڑے ہوئے , اور کچھ اُم حبیبہ کے گھر میں جا چھپے اور جو رہ گئے وہ حضرت عثمان کا حقِ نمک ادا کرتے ہوئے ان کے ساتھ قتل ہو گئے . (تاریخ الخلفائ و تاریخ طبری)
آپ کے قتل پر شعرائ نے مرثیے کہے . سردستِ ابو ہریرہ کے مرثیہ کا ایک شعر پیش نظر ہے
» لوگوں کو تو آج کے دن صرف ایک صدمہ ہے , لیکن مجھے برابر کے دو صدمے ہیں ایک حضرت عثمان کے قتل ہونے کا , اور دوسرا اپنے تھیلے کے کھو جانے کا. «
ان واقعات کو دیکھنے کے بعد امیر المومنین کا موقف واضح ہو جاتا ہے کہ نہ آپ اس جماعت کا ساتھ دے رہے تھے جو ان کے قتل پر اُبھار رہی تھی, اور نہ اس گروہ میں لائے جا سکتے ہیں کہ جو ان کی حمایت و مدافعت پر کھڑا ہوا تھا. بیشک جہاں تک حالات اجازت دیتے رہے , وہ ان کے بچاؤ کی صورتیں انہیں سمجھاتے رہے اور جب یہ دیکھا کہ جو کہا جاتا ہے , وہ عملاً کی انہیں جاتا , تو آپ اپنا دامن بچا کر الگ ہر گئے .
No comments:
Post a Comment