Saturday 18 April 2009

خطبہ ۳۸ و اردو ترجمہ

- و من كلام له ( عليه السلام ) و فيها علة تسمية الشبهة شبهة ثم بيان حال الناس فيها :

وَ إِنَّمَا سُمِّيَتِ الشُّبْهَةُ شُبْهَةً لِأَنَّهَا تُشْبِهُ الْحَقَّ فَأَمَّا أَوْلِيَاءُ اللَّهِ فَضِيَاؤُهُمْ فِيهَا الْيَقِينُ وَ دَلِيلُهُمْ سَمْتُ الْهُدَى وَ أَمَّا أَعْدَاءُ اللَّهِ فَدُعَاؤُهُمْ فِيهَا الضَّلَالُ وَ دَلِيلُهُمُ الْعَمَى فَمَا يَنْجُو مِنَ الْمَوْتِ مَنْ خَافَهُ وَ لَا يُعْطَى الْبَقَاءَ مَنْ أَحَبَّهُ .


خطبہ 38: شبہ کی وجہ تسمیہ

شبہ کو شبہ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ حق سے شباہت رکھتا ہے, تو جو دوستانِ خدا ہوتے ہیں, ان کےلیے شبہات (کے اندھیروں) میں یقین اُجالے کا اور یدائت کی سمت رہنما کا کام دیتی ہے. اور جو دشمنانِ خدا ہیں وہ ان شبہات میں گمراہی کی دعوت و تبلیغ کرتے ہیں, اور کوری و بےبصری ان کی رہبر ہوتی ہے. موت وہ چیز ہے کہ ڈرنے والا اس سے چھٹکارا نہیں پا سکتا اور ہمیشہ کی زندگی چاہنے والا ہمیشہ کی زندگی حاصل نہیں کر سکتا.

No comments: