Saturday 18 April 2009

خطبہ ۳۱ و اردو ترجمہ

- و من كلام له ( عليه السلام ) لما أنفذ عبد الله بن عباس إلى الزبير يستفيئه إلى طاعته قبل حرب الجمل :

لَا تَلْقَيَنَّ طَلْحَةَ فَإِنَّكَ إِنْ تَلْقَهُ تَجِدْهُ كَالثَّوْرِ عَاقِصاً قَرْنَهُ يَرْكَبُ الصَّعْبَ وَ يَقُولُ هُوَ الذَّلُولُ وَ لَكِنِ الْقَ الزُّبَيْرَ فَإِنَّهُ أَلْيَنُ عَرِيكَةً فَقُلْ لَهُ يَقُولُ لَكَ ابْنُ خَالِكَ عَرَفْتَنِي بِالْحِجَازِ وَ أَنْكَرْتَنِي بِالْعِرَاقِ فَمَا عَدَا مِمَّا بَدَا .

قال السيد الشريف : و هو ( عليه السلام ) أول من سُمعت منه هذه الكلمة ، أعني "فما عدا مما بدا".

خطبہ 31: جب جنگ ُ جمل شروع ہونے سے پہلے حضرت نے ابن عباس کو زبیر کے پاس اس مقصد سے بھیجا کہ وہ انہیں اطاعت کی طرف پلٹائیں , تو اس موقعہ پر ان سے فرمایا.

طلحہ سے ملاقات نہ کرنا. اگر تم اس سے ملے , تو تم اس کو ایک ایسا سرکش بیل پاؤ گے . جس کے سینگ کانوں کی طرف مڑے ہوئے ہوں . وہ منہ زور سواری پر سوار ہوتا ہے اور پھر کہتا یہ ہے کہ یہ رام کی ہوئی سواری پر سوار ہوتا ہے اور پھر کہتا یہ ہے کہ یہ رام کی ہوئی سواری ہے بلکہ تم زبیر سے ملنا اس لئے کہ وہ نرم طبیعت ہے اور اس سے یہ کہنا کہ تمہارے ماموں زاد بھائی نے کہا ہے کہ تم حجاز میں تو مجھ سے جان پہنچا ن رکھتے تھے اور یہاں عراق میں آکر بالکل اجنبی بن گئے . آخر اس تبدیلی کا کیا سبب ہے .

علامہ رضی فرماتے ہیں کہ اس کلام کا آخری جملہ » فما عد اممابدا« جس کا مطلب یہ ہے کہ اس تبدیلی کا کیا سبب ہوُا. سب سے پہلے آپ ہی کی زبان سے سنا گیا ہے .



No comments: