- و من خطبة له ( عليه السلام ) و فيها يصف العرب قبل البعثة ثم يصف حاله قبل البيعة له :
العرب قبل البعثة
إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّداً ( صلى الله عليه وآله ) نَذِيراً لِلْعَالَمِينَ وَ أَمِيناً عَلَى التَّنْزِيلِ وَ أَنْتُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ عَلَى شَرِّ دِينٍ وَ فِي شَرِّ دَارٍ مُنِيخُونَ بَيْنَ حِجَارَةٍ خُشْنٍ وَ حَيَّاتٍ صُمٍّ تَشْرَبُونَ الْكَدِرَ وَ تَأْكُلُونَ الْجَشِبَ وَ تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَ تَقْطَعُونَ أَرْحَامَكُمْ الْأَصْنَامُ فِيكُمْ مَنْصُوبَةٌ وَ الْآثَامُ بِكُمْ مَعْصُوبَةٌ .
و منها صفته قبل البيعة له
فَنَظَرْتُ فَإِذَا لَيْسَ لِي مُعِينٌ إِلَّا أَهْلُ بَيْتِي فَضَنِنْتُ بِهِمْ عَنِ الْمَوْتِ وَ أَغْضَيْتُ عَلَى الْقَذَى وَ شَرِبْتُ عَلَى الشَّجَا وَ صَبَرْتُ عَلَى أَخْذِ الْكَظَمِ وَ عَلَى أَمَرَّ مِنْ طَعْمِ الْعَلْقَمِ
خطبہ 26: پیغمبر کے بعد دنیا کی بے رخی اور معاویہ و عمرو بن العاص کا معاہدہ
اللہ تبارک و تعالیٰ نے محمد ﷺ کو تمام جہانوں کو (ان کی بد اعمالیوں سے ) متنبہّ کرنے والا اور اپنی وحی کا امین بنا کر بھیجا . اے گروہ عرب اس وقت تُم بد ترین دین پر اور بد ترین گھروں میں تھے. کھردرے پتھروں اور زہریلے سانپوں میں تم بودو باش رکھتے تھے تم گدلا پانی پیتے اور لوٹا جھوٹا کھاتے تھے . ایک دوسرے کا خون بہاتے اور شتہ قرابت قطع کیا کرتے تھے . تمہارے درمیان گڑے ہوئے تھے اور گناہ تم سے چمٹے ہوئے تھے اسی خطبہ کا ایک حصہ یہ ہے :.
میں نے نگاہ کر دیکھا , تو مجھے اپنے اہل بیت کے علاوہ کوئی اپنا معین و مدد گار نظر نہ آیا. میں نے انہیں موت کے منہ میں دینے سے نجل کیا. آنکھوں میں خس و خاشاک تھا مگر میں نے چشم پوشی کی , حلق میں پھندے تھے مگر میں نے غم و غصہ کے گھونٹ پی لئے اور گلو گرفتگی کے باوجود منظل سے زیادہ تلخ حالات پر صبر کیا.
اسی خطبہ کا ایک جُز یہ ہے . اس نے اس وقت تک معاویہ کی بیت نہیں کی. جب تک یہ شرط اس سے منوانہ لی کہ وہ اس بیعت کی قیمت ادا کرے اس بیعت کرنے والے کے ہاتھوں کو فتح و فیروز مندی نصیب نہ ہو اور خریدنے والے کے معاہدے کے ذلت و رسوائی حاصل ہو ( لو اب وقت آگیا کہ ) تم جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ اور اس کے لئے سازو سامان مہیا کرلو. اس کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں اور لپٹیں بلند ہو رہی ہیں اور جامعہ صبر پہن لو, کہ اس سے نصرت و کامرانی حاصل ہونے کا زیادہ امکان ہے .
حضرت نے نہر دان کی طرف متوجہ ہونے سے قبل ایک خطبہ ارشاد فرمایا تھا جس کے تین ٹکڑے یہ ہیں . پہلے ٹکڑے میں بعثت سے قبل جو عرب کی حالت تھی. اس کا تذکرہ فرمایا ہے اور دوسرے حصے میں رسول کی رحلت کے بعد جن حالات نے آپ کو گوشہ عزلت میں بیٹھنے پر مجبور کر دیا تھا. ان کی طرف اشارہ کیا ہے اور تیسرے حصے میں مُعاویہ اور ممرو بن عاص کے درمیان جو قول و قرار ہوا تھا اس کا ذکر کیا ہے . اس باہمی معاہدہ کی صورت یہ تھی کہ جب امیر المومنین نے جریر ابنِ عبداللہ بجلی کو بیعت لینے کے لئے معاویہ کے پاس روانہ کیا تو اس نے جریر کو جواب دینے کے بہانے روک لیا اور اس دوران میں اہل شام کو ٹٹولنا شروع کیا کہ وہ کہاں تک اس کا ساتھ دے سکتے ہیں . چنانچہ جب ان کو خونِ عثمان کے انتقام پر اُبھار کر اپنا ہمنوا بنا لیا تو اپنے بھائی عتبہ ابنِ ابی سفیان سے مشورہ کیا. اس نے رائے دی کہ اگر اس کام عمرو ابنِ عاص کو ساتھ ملا لیا جائے تو وہ اپنی سُوجھ سے بہت سی مشکلوں کو آسان کر سکتا ہے لیکن وہ یوں ہی تمہارے اقتدار کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہو گا. جب تک کہ اس کی منہ مانگی قیمت حاصل نہ کرے گا. اگر تم اس کے لئے تیار ہو تو وہ تمہارے لئے بہترین مشیرو معاون ثابت ہو گا. معاویہ نے اس مشورہ کو پسند کیا اور عمرو ابنِ عاص کو بُلا کر اس سے گفتگو کی اور آخر یہ طے پایا کہ وہ حکومت مصر کے بدلے میں امیر المومنین کو موردِ الزام ٹھہرا کر قتلِ عثمان کا انتقام لے گا اور جس طرح بن پڑے گا مُعاویہ کے شامی اقتدار کو متزلزل نہ ہونے دے گا. چنانچہ ان دونوں نے معاہدہ کی پابندی کی اور اپنے قول و قرار کو پوری طرح نباہا.
No comments:
Post a Comment