Saturday, 18 April 2009

خطبہ ۱۹ و اردو ترجمہ

- و من كلام له ( عليه السلام ) قاله للأشعث بن قيس و هو على منبر الكوفة يخطب، فمضى في بعض كلامه شي‏ء اعترضه الأشعث فيه، فقال يا أمير المؤمنين، هذه عليك لا لك ، فخفض عليه السلام إليه بصره ثم قال :

مَا يُدْرِيكَ مَا عَلَيَّ مِمَّا لِي عَلَيْكَ لَعْنَةُ اللَّهِ وَ لَعْنَةُ اللَّاعِنِينَ حَائِكٌ ابْنُ حَائِكٍ مُنَافِقٌ ابْنُ كَافِرٍ وَ اللَّهِ لَقَدْ أَسَرَكَ الْكُفْرُ مَرَّةً وَ الْإِسْلَامُ

نهج البلاغة : ........... ............ صفحة : (62)

أُخْرَى فَمَا فَدَاكَ مِنْ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا مَالُكَ وَ لَا حَسَبُكَ وَ إِنَّ امْرَأً دَلَّ عَلَى قَوْمِهِ السَّيْفَ وَ سَاقَ إِلَيْهِمُ الْحَتْفَ لَحَرِيٌّ أَنْ يَمْقُتَهُ الْأَقْرَبُ وَ لَا يَأْمَنَهُ الْأَبْعَدُ .

قال السيد الشريف : يريد ( عليه السلام ) أنه أسر في الكفر مرة و في الإسلام مرة .

و أما قوله ( عليه السلام ) دل على قومه السيف فأراد به حديثا كان للأشعث مع خالد بن الوليد باليمامة غر فيه قومه و مكر بهم حتى أوقع بهم خالد و كان قومه بعد ذلك يسمونه عرف النار و هو اسم للغادر عندهم .


خطبہ 19: اشعث بن قیس کی غداری کا واقعہ

امیر المومنین علیہ السلام منبرِ کوفہ پر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اشعت ابنِ قیس نے آپ کے کلام پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یا امیر المومنین یہ بات تو آپ کے حق میں نہیں بلکہ آپ کے خلاف پڑتی ہے . تو حضرت نے اسے نگاةُ غضب سے دیکھا اور فرمایا:.

تجھے کیا معلوم کہ کون سی چیز میرے حق میں ہے اور کون سی چیز میرے خلاف جاتی ہے. تجھ پر اللہ کی پھٹکار اور لعنت کرنے والوں کو ئی جو لاہے کا بیٹا جو لاہا اور کافر کی گود میں پلنے والا منافق ہے . تو ایک دفعہ کافروں کے ہاتھو ں میں اور ایک دفعہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں اسیر ہوا. لیکن تجھ کو تیرا مال اور حسب اس عار سے نہ بچا سکا اور جو شخص اپنی قوم پر تلوار چلوا دے اور اس کی طرف موت کو دعوت اور ہلاکت کا بلاوا دے, وہ اسی قابل ہے کہ قریبی اس سے نفرت کریں اور دور والے بھی اس پر بھروسہ نہ کریں .

سید رضی فرماتے ہیں کہ یہ ایک دفعہ کفر کے زمانہ میں اور ایک دفعہ اسلام کے زمانہ میں اسیر کیا گیا تھا. رہا حضرت کا یہ ارشاد کہ جو شخص اپنی قوم پر تلوار چلوا دے, تو اس سے اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جو اشعث کو خالد ابنِ ولید کے مقابلہ میں یمامہ میں پیش آیا تھا کہ جہاں اس نے اپنی قوم کو فریب دیا تھا اور ان سے چال چلی تھی. یہاں تک کہ خالد نے ان پر حملہ کر دیا اور اس واقعہ کے بعد اس کی قوم والوں نے اس کا لقب عرف النار رکھ دیا اور یہ ان کے محاورہ میں غدار کے لئے بولا جاتا ہے .

اشعث ابنِ قیس کندی

اس کا اصل نام معد یکرب اور کنیت ابو محمد ہے . مگر اپنے بالوں کی پراگندگی کی وجہ سے اشعث(پراگندہ مُو) کے لقب سے زیادہ مشہور ہے . جب بعثت کے بعد یہ اپنے قبیلہ سمیت مکہ آیا تو پیغمبر نے اسے اور اسکے قبیلہ کو اسلام کی دعوت دی. لیکن یہ سب منہ موڑ کر چلتے ہوئے . اور ایک بھی اسلام قبول کرنے کے لئے آمادہ نہ ہوا. اور جب ہجرت کے بعد اسلام کے قدم جم گئے اور اس کا پرچم لہرانے لگا اور اطراف و جوانب کے وفد جوق در جوق مدینہ آنا شروع ہوئے تو یہ بھی بنی کندہ کے ایک وفد کے ہمراہ پیغمبر کی خدمت میں آیا اور اسلام قبول کیا. صاحبِ استیعاب لکھتے ہیں کہ یہ پیغمبر اسلام کے بعد مرتد ہو گیا اور حضرت ابو بکر کے زمانہ خلافت میں کہ جب اسے اسیر کر کے مدینہ لایا گیا تو پھر کے اسلام قبول کیا مگر اس وقت بھی اس کا اسلام صرف دکھاوے کا تھا. چنانچہ شیخ محمد عبدہ نے حاشیہ نہج البلاغہ پر تحریر کیا ہے کہ

جس طرح عبداللہ ابنِ ابی ابنِ سلول اصحاب ُ رسول میں تھا. ویسا ہی اشعث علی ابنِ ابی طالب کی جماعت میں تھا اور یہ دونوں اپنے اپنے عہد میں چوٹی کے منافق تھے.

جنگِ یرموک میں اس کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی. چنانچہ قتیبہ نے المعارف میں اسے کانوں کی فہرست میں درج کیا ہے اور حضرت ابو بکر کی بہن ام فروہ بنتِ ابی قحافہ جو پہلے ایک ازوی کے نکا ح میں اور پھر تیم دارمی کے عقد میں تھیں . تیسری دفعہ اسی اشعث سے بیاہی گئیں . جن سے تین لڑکے محمد , اسماعیل اور اسحاق پیدا ہوئے . کتب ُ رجال میں لکھا ہے کہ یہ بھی ایک آنکھ سے معذور تھیں ابن ابی الحدید نے ابو الفرج سے یہ عبارت نقل کی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ قتل امیر المومنین کی سازش میں برابر کا شریک تھا.

شبِ ضرب ابن ملجم اشعث ابنِ قیس کے پاس آیا اور دونوں علٰیحدگی میں مسجد کے ایک گوشہ میں جا کر بیٹھ گئے . کہ اُدھر سے حجر ابن عد ی کا گزر ہوا, تو انہوں نے سنا کہ اشعث ابن ملجم سے کہہ رہا ہے کہ بس اب جلدی کرو, ورنہ َو پھوٹ کر تمہیں رسوا کر دے گی. حجر نے یہ سنا تو اشعث سے کہا کہ اے کانے تو علی کے قتل کا سروسامان کر رہا ہے اور پھر تیزی سے علی ابن ابی طالب کی طرف گئے. مگر جب امیر المومنین علیہ السّلام کو نہ پا کرپلٹے تو ابنِ ملجم اپنا کام کر چکا تھا , اور لوگ کہہ رہے تھے کہ امیر المومنین قتل کر دیئے گئے.

اس کی بیٹی جعدہ نے حضرت امام حسن علیہ السّلام کو زہر دے کر ان کی زندگی کا خاتمہ کر دیا تھا. چنانچہ مسعودی نے لکھا ہے کہ :.

آپ کی زوجہ جعدہ بنت اشعث کندی نے آپ کو زہر دیا اور معاویہ نے اس سے یہ ساز باز کی تھی کہ اگر تم کسی طریقہ سے حسن کو زہر دے دو. تو میں تمہیں ایک لاکھ درہم دوں گا اور یزید سے تمہارا عقد کر دوں گا.

اس کا بیٹا محمد ابن اشعث کوفہ میں حضرت مسلم کو فریب دینے اور کربلا میں خون سید الشہدا بہانے میں شریک تھا مگر ان سب باتوں کے باوجود بخاری, مسلم, ابو داؤد , ترمذی , نسائی اور ابنِ ماجہ کے راویانِ حدیث میں سے ہے .

جنگِ نہروان کے بعد مسجد کوفہ میں تحکیم کی بدعنوانیوں کے سلسلہ میں حضرت خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا کہ امیرالمومنین آپ نے پہلے تو ہمیں اس تحکیم سے روکا اور پھر اس کا حکم بھی دے دیا ہمیں نہیں معلوم کہ ان دونوں باتوں میں سے کون سی بات زیادہ صحیح اور مناسب تھی. حضرت نے یہ سن کر ہاتھ پر ہاتھ مارا اور فرمایا ھذ ا جزائ من ترک العقدة جو ٹھوس رائے کو چھوڑدیتا ہے . اسے ایسا ہی خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے . یعنی یہ تمہارے کرتوت کا پھل ہے جو تم نے حزم و احتیاط کا دامن چھوڑ کر تحکیم کے مان لینے پر اصرار کیا تھا. مگر اشعث اس سے یہ سمجھا کہ حضرت اپنے بارے میں فرمار ہے ہیں کہ میری یہ حیرانی و سرگرادانی تحکیم کے مان لینے کا نتیجہ ہے . لہذا بول اٹھا کر یا امیرالمومنین اس سے تو آپ ہی کی ذات پر حرف آتا ہے جس پر حضرت نے بگڑ کر فرمایا کہ تمہیں کیا معلوم کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور تم کیا جانو کہ کون سی چیز میرے حق میں ہے اور کون سی چیز میرے خلاف پڑتی ہے . تم جو لاہے اور جولاہے کے بیٹے اور کافر کی گود میں پروان چڑھنے والے منافق ہو. تم پر اللہ کی اور ساری دنیا کی لعنت ہو. شارحین نے امیرالمومنین کے اشعث کو حائک (جولاہا) کہنے کی چند وجہیں لکھی ہیں . پہلی وجہ یہ ہے کہ چونکہ یہ اور اس کا باپ اپنے اکثر اہلِ وطن کی طرح کپڑا ببنے کا دھند ا کرتے تھے. اس لئے اس کے پیشہ کی پستی و دنایت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے اسے جولاہا کہا ہے یوں تو یمنیوں کے پیشے اور بھی کئی تھے. مگر زیادہ دھندا ان کے ہاں یہی ہوتا تھا چنانچہ خالد ابنِ صفوان نے ان کے پیشوں کا تعارف کراتے ہوئے پہلے اسی پیشے کا ذکر کیا ہے .

میں اس قوم کے بارے میں کیا کہوں کہ جن میں صرف کپڑابننے والے , چمڑا رنگنے والے, بندر نچانے والے اور گدھے پر سوار ہونے والے ہی ہوتے ہیں . ہُد ہُد نے ان کا ٹھکانا بتایا. ایک چوہیا نے انہیں غرق کر دیا. اور ایک عورت نے ان پر حکومت کی.

دوسری وجہ یہ ہے کہ حیاکت کے معنی جھوم کر اور بَل کھا کر چلنے کے ہیں اور یہ چونکہ غرور اور تکبر کی وجہ سے شانے مٹکا کر اور بل کھا کر چلتا تھا. اس بنا پر اسے حائک فرمایا.

تیسری وجہ یہ ہے اور یہی زیادہ نمایاں اور واضح ہے کہ اس کی حماقت و دنانیت ظاہر کرنے کے لیے اسے جولاہا کہا ہے چونکہ ہونی و فرد مایہ کو مثل کے طور پر جولاہا کہہ دیا جاتا ہے . ان کے فہم و فراست کا یہی عروج کیا کم تھا کہ ان کی حماقتیں ضرب المثل بن چکی تھیں جب کہ کسی خصوصی امتیاز کے بغیر کوئی چیز ضرب المثل کی حیثیت حاصل نہیں کیا کرتی کہ امیرالمومنین نے بھی اسکی توثیق فرما دی کہ جس کے بعد کسی دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی.

چوتھی وجہ یہ ہے کہ جو اللہ و رسول کے خلا ف جو ڑ توڑ کرے اور افترا پردازیوں کے جال بنے کہ جو صرف منافق ہی کا شیوہ ہوتا ہے . چنانچہ وسائل الشیعہ میں ہے کہ:.

امام جعفر صادق علیہ السلام کے سامنے حائک کے ملعون ہونے کا ذکر ہوا , تو آپ نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ ہے جو اللہ و رسول پر افترا باندھتا ہے .

لفظُ حائک کے بعد لفظ منافق ارشاد فرمایا ہے اور دونوں میں واوعطف کا بھی فاصلہ نہیں رکھا تا کہ دونوں کے قریب المعنی ہونے پر روشنی پڑے اور پھر اس نفاق و حق پوشی کی بنا پر اسے اللہ اور لعنت کرنے والوں کی لعنت کا مستحق ٹھرایا ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے.

وہ لوگ جو ہماری اتاری ہوئی نشانیوں اور رہنماؤں کو چھپاتے ہیں باوجود یہ کہ ہم نے کتاب میں انہیں کھول کر ان کے سامنے رکھ دیا ہے تو یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں .

اس کے بعد فرماتے ہیں کہ تم کفر میں بھی اسیری کی ذلت سے نہ بچ سکے اور اسلام لانے کے بعد بھی ان رسوائیوں نے تمہارا پیچھا نہ چھوڑا اور تمہیں اسیر بنا لیا گیا. چنانچہ کفر کی حالت میں اس کی اسیری کی صورت یہ ہوئی کہ جب اس کے باپ قیس کو قبیلہ بنی مراد نے قتل کر ڈالا, تو اس نے بنی کندہ کے جنگ آزماؤں کو جمع کیا اور انہیں تین ٹولیوں میں بانٹ دیا. ایک ٹولی کی باگ دوڑ خود سنبھالی اور دوسری دو ٹولیوں پر کبش ابن ہانی اور قشعم ابن ارقم کو سردار مقر ر کیا اور بنی مراد پر حملہ کرنے کے لئے چل کھڑا ہوا. مگر بد بختی جو آئی تو بنی مراد کے بجائے بنی حارث ابنِ کعب پر حملہ کر دیا , جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کبش ابن ہانی اور قشعم ابنِ راقم قتل کر دیئے گئے. اور اسے زندہ گرفتار کر لیا گیا. آخر تین ہزا ر اونٹ فدیہ کے دے کر ان سے جان چھڑائی . امیر المومنین کے ارشاد نما فدا ک من واحدة منھما مالک ولا حسبک (تجھے تیرا مال و حسب ان دونوں گرفتاریوں میں سے کسی ایک سے بھی نہ چھڑا سکا) میں فدیہ سے مراد حقیقی فدیہ نہیں ہے کیونکہ وہ فدیہ دے کر ہی آزاد ہوا تھا. بلکہ مقصد یہ ہے کہ اسے ماں کی فراوانی اور کنبہ میں توقیرو سر بلندی اس عار سے نہ بچا سکی اور وہ اسیری کی ذلتوں سے اپنا دامن محفوظ نہ رکھ سکا.

اس کی دوسری اسیری کا واقعہ یہ ہے کہ جب پیغمبر اسلام نے دنیا سے رحلت فرمائی تو حضر موت کے علاقہ میں بغاوت پھیل گئی جسے فرو کرنے کے لئے حضرت ابو بکر نے وہاں کے حاکم زیاد ابن لبید کو لکھا ہے کہ وہ ان لوگوں سے بیعت لے اور ان سے زکٰوة و صدقات وصول کرے. چنانچہ جب زیادہ ابن لبید قبیلہ بنی عمرو ابنِ معاویہ کے ہاں زکٰوة جمع کرنے کے لئے گیا تو شیطانِ ابنِ حجر کی ایک اونٹنی جو بڑی خوبصورت اور مضبوط ڈیل ڈول کی تھی اسے پسند آگئی. اس نے بڑھ کر اس پر قبضہ کر لیا. شیطان اسے دینے پر رضامند نہ ہوا, اور کہا کہ اسے رہنے دیجئے اور اس کے بدلہ میں کوئی اور اونٹنی لے لیجئے مگر زیاد نہ مانا. شیطان نے اپنے بھائی عدائ ابنِ حجر کو اپنی حمایت کے لئے بلا لیا. اس نے بھی آکر کہا سنُا مگر زیادہ اپنی ضد پر اڑا رہا. اور کسی صورت میں اونٹنی سے ہاتھ اٹھانے پر آمادہ نہ ہوا. آخر ان دونوں بھائیوں نے مسروق ابن معد یکرب سے فریاد کی . چنانچہ مسروق نے بھی اپنا زور لگایا کہ کسی طرح زیاد اس اونٹنی کو چھوڑ دے مگر اس نے صاف صاف انکار کر دیا. جس پر مسروق کو جوش آیا اور اس نے بڑھ کراونٹنی کھول لی اور شیطان کے حوالہ کر دی. زیاد اس پر بھڑک اٹھا اور اپنے آدمیوں کو جمع کیا اور مرنے مارنے کے لئے تل گیا. ادھر بنی لبید بھی مقابلہ کے لئے اکٹھا ہو گئے . مگر زیادہ شکست نہ دے سکے, بلکہ بُری طرح اس کے ہاتھوں پٹے. عورتیں چھنوائیں اور مال و متاع لٹوایا. آخر جو بچے کھچے رہ گئے تھے وہ اشعث کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے . اشعث نے اس شرط پر کمک کا وعدہ کیا کہ اسے اس علاقہ کا حکمران مان لیا جائے . ان لوگوں نے اس شرط کو تسلیم کر لیا اور باقاعدہ اس کی رسمِ تا جپوشی بھی ادا کر دی . جب یہ اپنا اقتدار منوا چکا تو ایک فوج کو ترتیب دے کر زیاد سے لڑنے کے لئے نکل کھڑا ہوا. ادھر حضرت ابو بکر نے مہاجرین امیہ والی یمن کو لکھ رکھا تھا کہ وہ ایک دستہ لے کر زیادہ کی مدد کو پہنچ جائے . چنانچہ مہاجر فوجی دستہ لئے آرہا تھا کہ اس کا سامنا ہو گیا. اور دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ کر تلواریں سونت لیں اور مقام زرقان میں معرکہ کا ر زار گرم کر دیا. مگر نتیجہ میں اشعث میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا اور باقی ماندہ لوگوں کے ساتھ قلعہ بخیر میں قلعہ بند ہو گیا. دشمن ایسے نہ تھے کہ پیچھا چھوڑ دیتے انہوں نے قلعہ کے گرد محاصرہ ڈال دیا. اشعث نے سوچا کہ وہ اس بے سروسامانی کے عالم میں کب تک قلعہ میں محصورہ سکتا ہے . رہائی کی کوئی ترتیب کرنا چاہیئے . چنانچہ وہ چپکے سے ایک رات قلعہ سے باہر نکلا, زیادہ اور مہاجر سے جا کر ملا اور ان سے یہ سازباز کی کہ اگر اسے اور اس کے گھر کے نو آدمیوں کو امان دے دی جائے تو قلعہ کا دروازہ کھلوا دے گا. انہوں نے اس شرط کو مان لیا اور اس سے کہا کہ ان کے نام لکھ کر ہمیں دے دو. اس نے نو نام لکھ کر ان کے حوالے کر دیئے اور اپنی روایتی دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنا نام اس فہرست میں بھول گیا. ادھر یہ طے کرنے کے بعد اپنی قوم سے جا کر یہ کہا کہ میں تمہارے لئے امان حاصل کر چکا ہوں . اب قلعہ کا دروازہ کھول دیا جائے. جب دروازہ کھولا گیا تو زیا د کی فوج ان پر ٹوٹ پڑی. ان لوگوں نے کہا کہ ہم سے تو امان کا وعدہ کیا گیا تھا. زیاد کی سپاہ نے کہا کہ غلط , اشعث نے صرف اپنے گھر کے دس آدمیوں کے لئے امان چاہی تھی. جن کے نام ہمارے پاس محفوظ ہیں . غرضکہ آٹھ سو آدمیوں کو تہ تیغ کر دیا گیا اور کئی عورتوں کے ہاتھ قلم کئے گئے اور حسبِ معاہدہ تو آدمیوں کو چھوڑ دیا گیا. مگر اشعث کا معاملہ پیچیدہ ہو گیا اور آخر یہ طے پایا کہ اسے حضرت ابو بکر کے پاس بھیج دیا جائے وہی اس کا فیصلہ کریں گے,آخرایک ہزار قیدی عورتوں کے ساتھ اسے بیڑیوں میں جکڑ کر مدینہ روانہ کر دیا گیا. راستے میں اپنے , بیگانے , عورتیں , مرد سب اس پر لعنت کرتے جاتے تھے اور عورتیں اسے غدار کہہ کر پکار رہی تھیں . اور جو اپنی قوم پر تلوار چلا دے اس سے زیادہ غدار ہو بھی کون سکتا ہے . بہر صورت جب یہ مدینہ پہنچا تو حضرت ابو بکر نے اسے رہا کر دیا اور اسی موقع پر ام فروہ سے اس کا عقد ہوا.

No comments: