Saturday 18 April 2009

خطبہ ۴۲ و اردو ترجمہ

- و من كلام له ( عليه السلام ) و فيه يحذر من اتباع الهوى و طول الأمل في الدنيا :

أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ اثْنَانِ اتِّبَاعُ الْهَوَى وَ طُولُ الْأَمَلِ فَأَمَّا اتِّبَاعُ الْهَوَى فَيَصُدُّ عَنِ الْحَقِّ وَ أَمَّا طُولُ الْأَمَلِ

نهج البلاغة : ........... ............ صفحة : (84)

فَيُنْسِي الْآخِرَةَ أَلَا وَ إِنَّ الدُّنْيَا قَدْ وَلَّتْ حَذَّاءَ فَلَمْ يَبْقَ مِنْهَا إِلَّا صُبَابَةٌ كَصُبَابَةِ الْإِنَاءِ اصْطَبَّهَا صَابُّهَا أَلَا وَ إِنَّ الْآخِرَةَ قَدْ أَقْبَلَتْ وَ لِكُلٍّ مِنْهُمَا بَنُونَ فَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الْآخِرَةِ وَ لَا تَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الدُّنْيَا فَإِنَّ كُلَّ وَلَدٍ سَيُلْحَقُ بِأَبِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ إِنَّ الْيَوْمَ عَمَلٌ وَ لَا حِسَابَ وَ غَداً حِسَابٌ وَ لَا عَمَلَ .

قال الشريف : أقول ، " الحذاء السريعة " ، و من الناس من يرويه " جذاء " .

خطبہ 42: لمبی امیدوں کے متعلق فرمایا

اے لوگو! مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ دو باتوں کا ڈر ہے. ایک خواہشوں کی پیروی , اور دوسرے امیدوں کا پھیلاؤ خواہشوں کی پیروی وہ چیز ہے, جو حق سے روک دیتی ہے اور امیدوں کا پھیلاؤ آخرت کو بھلا دیتا ہے. تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا تیزی سے جارہی ہے اور اس میں سے کچھ باقی نہیں رہ گیا ہے. مگر اتنا ہے کہ جیسے کوئی انڈیلنے والا برتن کو انڈیلے تو اس میں کچھ تری باقی رہ جاتی ہے اور آخرت کا ادھر رخ لیے ہوئے آرہی ہے اور دنیا و آخرت ہر ایک والے خاص آدمی ہوتے ہیں. تو تم فرزندِ آخرت بنو, اور انبائ دنیا نہ نہ بنو. اس لیے کہ ہر بیٹا روزِ قیامت اپنی ماں سے منسلک ہو گا آج عمل کا دن ہے اور حساب نہیں ہے اور کل حساب کا دن ہو گا, عمل نہ ہو سکے گا.

علامہ رضی کہتے ہیں کہ الحذّا کے معنی تیز رو کے ہیں اور بعض نے الجذا ئ روایت کیا ہے. (اس روایت کی بنا پر ہی معنی ہوں گے کہ دنیا کی لذتوں کا سلسلہ جلد ختم ہو جائگا.


No comments: