- و من خطبة له ( عليه السلام ) و هو فصل من الخطبة التي أولها "الحمد للّه غير مقنوط من رحمته" و فيه أحد عشر تنبيها :
أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الدُّنْيَا أَدْبَرَتْ وَ آذَنَتْ بِوَدَاعٍ وَ إِنَّ الْآخِرَةَ قَدْ أَقْبَلَتْ وَ أَشْرَفَتْ بِاطِّلَاعٍ أَلَا وَ إِنَّ الْيَوْمَ الْمِضْمَارَ وَ غَداً السِّبَاقَ وَ السَّبَقَةُ الْجَنَّةُ وَ الْغَايَةُ النَّارُ أَ فَلَا تَائِبٌ مِنْ خَطِيئَتِهِ قَبْلَ مَنِيَّتِهِ أَ لَا عَامِلٌ لِنَفْسِهِ قَبْلَ يَوْمِ بُؤْسِهِ أَلَا وَ إِنَّكُمْ فِي أَيَّامِ أَمَلٍ مِنْ وَرَائِهِ أَجَلٌ فَمَنْ عَمِلَ فِي أَيَّامِ أَمَلِهِ قَبْلَ حُضُورِ أَجَلِهِ فَقَدْ نَفَعَهُ عَمَلُهُ وَ لَمْ يَضْرُرْهُ أَجَلُهُ وَ مَنْ قَصَّرَ فِي أَيَّامِ أَمَلِهِ قَبْلَ حُضُورِ أَجَلِهِ فَقَدْ خَسِرَ عَمَلُهُ وَ ضَرَّهُ أَجَلُهُ أَلَا فَاعْمَلُوا فِي الرَّغْبَةِ كَمَا تَعْمَلُونَ فِي الرَّهْبَةِ أَلَا وَ إِنِّي لَمْ أَرَ كَالْجَنَّةِ نَامَ طَالِبُهَا وَ لَا كَالنَّارِ نَامَ هَارِبُهَا أَلَا وَ إِنَّهُ مَنْ لَا يَنْفَعُهُ الْحَقُّ يَضُرُّهُ الْبَاطِلُ وَ مَنْ لَا يَسْتَقِيمُ بِهِ الْهُدَى يَجُرُّ بِهِ الضَّلَالُ إِلَى الرَّدَى أَلَا وَ إِنَّكُمْ قَدْ أُمِرْتُمْ بِالظَّعْنِ وَ دُلِلْتُمْ عَلَى الزَّادِ وَ إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ
نهج البلاغة : ........... ............ صفحة : (72)
عَلَيْكُمُ اثْنَتَانِ اتِّبَاعُ الْهَوَى وَ طُولُ الْأَمَلِ فَتَزَوَّدُوا فِي الدُّنْيَا مِنَ الدُّنْيَا مَا تَحْرُزُونَ بِهِ أَنْفُسَكُمْ غَداً .
قال السيد الشريف رضي الله عنه : و أقول إنه لو كان كلام يأخذ بالأعناق إلى الزهد في الدنيا و يضطر إلى عمل الآخرة لكان هذا الكلام و كفى به قاطعا لعلائق الآمال و قادحا زناد الاتعاظ و الازدجار و من أعجبه قوله ( عليه السلام ) ألا و إن اليوم المضمار و غدا السباق و السبقة الجنة و الغاية النار فإن فيه مع فخامة اللفظ و عظم قدر المعنى و صادق التمثيل و واقع التشبيه سرا عجيبا و معنى لطيفا و هو قوله ( عليه السلام ) و السبقة الجنة و الغاية النار فخالف بين اللفظين لاختلاف المعنيين و لم يقل السبقة النار كما قال السبقة الجنة لأن الاستباق إنما يكون إلى أمر محبوب و غرض مطلوب و هذه صفة الجنة و ليس هذا المعنى موجودا في النار نعوذ بالله منها فلم يجز أن يقول و السبقة النار بل قال و الغاية النار لأن الغاية قد ينتهي إليها من لا يسره الانتهاء إليها و من يسره ذلك فصلح أن يعبر بها عن الأمرين معا فهي في هذا الموضع كالمصير و المآل قال الله تعالى قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِيرَكُمْ إِلَى النَّارِ و لا يجوز في هذا الموضع أن يقال سبْقتكم بسكون الباء إلى النار فتأمل ذلك فباطنه عجيب و غوره بعيد لطيف و كذلك أكثر كلامه ( عليه السلام ) و في بعض النسخ و قد جاء في رواية أخرى و السُّبْقة الجنة بضم السين و السبقة عندهم اسم لما يجعل للسابق إذا سبق من مال أو عرض و المعنيان متقاربان لأن ذلك لا يكون جزاء على فعل الأمر المذموم و إنما يكون جزاء على فعل الأمر المحمود .
خطبہ 28: دنیا کی بیثباتی اور آخرت کی اہمیت کا تذکرہ
دنیا نے پیٹھ پھرا کر اپنے رخصت کا ہونے کا اعلان اور منزلِ عقبیٰ نے سامنے آ کر اپنی آمد سے آگاہ کر دیا ہے۔ آج کا دن تیاری کا ہے، اور ک دوڑ کا ہو گا۔ جس طرف آگے بڑھنا ہے وہ تو جنت ہے اور جہاں کچھ اشخاس (اپنے اعمال کی بعولت بلا اختیار) پہنچ جائیں گے، وہ دوزخ ہے ۔ کیا موت سے پہلے اپنے گناہوں سے توبہ کرنے والا کوئی نہیں اور کیا اس روز مصیبت کے ّنے سے پللے عمل ((خیر) کرنے والا ایک بھی نہیں ، تم امیدوں کے دور میں ہو جس کے پیچھے موت کا ہنگام ہے۔ تو جو شخص موت سے پہلے ان امیدوں کے دنوں میں عمل کر لیتا ہے تو یہ عمل اُس کے لیے سودمند ثابت ہوتا ہے ار موت اُس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی اور جو شخص موت سے قبل زمانہ امید و آرزو میں کوتاہیاں کرتا ہے، تو وہ عمل کے اعتبار سے نضصان رسیدہ رہتا ہے اور موت اس کے لیے پیغامِ ضرر لے کر آتی ہے۔ لہذا جس طرح اس وقت جب نگوار حالات کا اندیشہ ہو نیک اعمال میں منہمک ہوتے ہو، ویسا ہی اس وقت بھی نیک اعمال کرو۔ جبکہ مستقبل کے آثار مسرت افزا محسوس ہو رہے ہوں ۔ مجھے جنت یہ ایسی چیز نظر آری ہے جس کا طلب گار سویا پڑا ہو اور جہنم یہ ایسی چے دکھائی دیتی ہے جس سے دور بھاگنے وال خوابِ غفلت میں محو ہو جو حق سے فائدہ نہیں اٹھاتا اسے باطل کا نقصان و ضرر اٹھانا پڑے گا۔ جس کو ہدایت ثابت قدم نہ رکھے اسے گمراہی ہلاکت کی طرف کھینچ لے جائے گی۔ تمہیں کوچ کا حکم مل چکا ہے اور زادِ راہ کا پتہ دیا جا شکا ہے ۔ مجھے تمہارے متعلق سب سے زیادہ دو ہی چیزوں کا خطرہ ہے۔ ایک خواہشات کی پیروی اور دوسرے امیدوں کا پھیلاؤ۔ اس دنیا میں رہتے ہوئے اس سے اتنا زاد لے لو جس سے کل اپنے نفسوں کو بچا سکو۔
No comments:
Post a Comment