Saturday, 18 April 2009

خطبہ ۳۲ و اردو ترجمہ

- و من خطبة له ( عليه السلام ) و فيها يصف زمانه بالجور، و يقسم الناس فيه خمسة أصناف، ثم يزهد في الدنيا :

معنى جور الزمان

أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا قَدْ أَصْبَحْنَا فِي دَهْرٍ عَنُودٍ وَ زَمَنٍ كَنُودٍ يُعَدُّ فِيهِ الْمُحْسِنُ مُسِيئاً وَ يَزْدَادُ الظَّالِمُ فِيهِ عُتُوّاً لَا نَنْتَفِعُ بِمَا عَلِمْنَا وَ لَا نَسْأَلُ عَمَّا جَهِلْنَا وَ لَا نَتَخَوَّفُ قَارِعَةً حَتَّى تَحُلَّ بِنَا .

أصناف المسيئين

وَ النَّاسُ عَلَى أَرْبَعَةِ أَصْنَافٍ مِنْهُمْ مَنْ لَا يَمْنَعُهُ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَهَانَةُ نَفْسِهِ وَ كَلَالَةُ حَدِّهِ وَ نَضِيضُ وَفْرِهِ وَ مِنْهُمْ الْمُصْلِتُ

نهج البلاغة : ........... ............ صفحة : (75)

لِسَيْفِهِ وَ الْمُعْلِنُ بِشَرِّهِ وَ الْمُجْلِبُ بِخَيْلِهِ وَ رَجِلِهِ قَدْ أَشْرَطَ نَفْسَهُ وَ أَوْبَقَ دِينَهُ لِحُطَامٍ يَنْتَهِزُهُ أَوْ مِقْنَبٍ يَقُودُهُ أَوْ مِنْبَرٍ يَفْرَعُهُ وَ لَبِئْسَ الْمَتْجَرُ أَنْ تَرَى الدُّنْيَا لِنَفْسِكَ ثَمَناً وَ مِمَّا لَكَ عِنْدَ اللَّهِ عِوَضاً وَ مِنْهُمْ مَنْ يَطْلُبُ الدُّنْيَا بِعَمَلِ الْآخِرَةِ وَ لَا يَطْلُبُ الْآخِرَةَ بِعَمَلِ الدُّنْيَا قَدْ طَامَنَ مِنْ شَخْصِهِ وَ قَارَبَ مِنْ خَطْوِهِ وَ شَمَّرَ مِنْ ثَوْبِهِ وَ زَخْرَفَ مِنْ نَفْسِهِ لِلْأَمَانَةِ وَ اتَّخَذَ سِتْرَ اللَّهِ ذَرِيعَةً إِلَى الْمَعْصِيَةِ وَ مِنْهُمْ مَنْ أَبْعَدَهُ عَنْ طَلَبِ الْمُلْكِ ضُئُولَةُ نَفْسِهِ وَ انْقِطَاعُ سَبَبِهِ فَقَصَرَتْهُ الْحَالُ عَلَى حَالِهِ فَتَحَلَّى بِاسْمِ الْقَنَاعَةِ وَ تَزَيَّنَ بِلِبَاسِ أَهْلِ الزَّهَادَةِ وَ لَيْسَ مِنْ ذَلِكَ فِي مَرَاحٍ وَ لَا مَغْدًى .

الراغبون في اللّه

وَ بَقِيَ رِجَالٌ غَضَّ أَبْصَارَهُمْ ذِكْرُ الْمَرْجِعِ وَ أَرَاقَ دُمُوعَهُمْ خَوْفُ الْمَحْشَرِ فَهُمْ بَيْنَ شَرِيدٍ نَادٍّ وَ خَائِفٍ مَقْمُوعٍ وَ سَاكِتٍ مَكْعُومٍ وَ دَاعٍ مُخْلِصٍ وَ ثَكْلَانَ مُوجَعٍ قَدْ أَخْمَلَتْهُمُ التَّقِيَّةُ وَ شَمِلَتْهُمُ الذِّلَّةُ فَهُمْ فِي بَحْرٍ أُجَاجٍ أَفْوَاهُهُمْ ضَامِزَةٌ وَ قُلُوبُهُمْ قَرِحَةٌ قَدْ وَعَظُوا حَتَّى مَلُّوا وَ قُهِرُوا حَتَّى ذَلُّوا وَ قُتِلُوا حَتَّى قَلُّوا .

نهج البلاغة : ........... ............ صفحة : (76)

التزهيد في الدنيا

فَلْتَكُنِ الدُّنْيَا فِي أَعْيُنِكُمْ أَصْغَرَ مِنْ حُثَالَةِ الْقَرَظِ وَ قُرَاضَةِ الْجَلَمِ وَ اتَّعِظُوا بِمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ قَبْلَ أَنْ يَتَّعِظَ بِكُمْ مَنْ بَعْدَكُمْ وَ ارْفُضُوهَا ذَمِيمَةً فَإِنَّهَا قَدْ رَفَضَتْ مَنْ كَانَ أَشْغَفَ بِهَا مِنْكُمْ .

قال الشريف رضي الله عنه : أقول و هذه الخطبة ربما نسبها من لا علم له إلى معاوية و هي من كلام أمير المؤمنين ( عليه السلام ) الذي لا يشك فيه ، و أين الذهب من الرغام ، و أين العذب من الأجاج ، و قد دل على ذلك الدليل الخريت ، و نقده الناقد البصير عمرو بن بحر الجاحظ ، فإنه ذكر هذه الخطبة في كتاب البيان و التبيين ، و ذكر من نسبها إلى معاوية ، ثم تكلم من بعدها بكلام في معناها جملته أنه قال ، و هذا الكلام بكلام علي ( عليه السلام ) أشبه ، و بمذهبه في تصنيف الناس و في الإخبار عما هم عليه من القهر و الإذلال و من التقية و الخوف أليق ، قال : و متى وجدنا معاوية في حال من الأحوال يسلك في كلامه مسلك الزهاد و مذاهب العباد .

خطبہ 32: دنیا کی مذمت اور اہل دنیا کی قسمیں

اے لوگو ! ایک ایسے کج رفتار زمانہ اور ناشکر گذار دنیا میں پیدا ہوئے ہیں کہ جس میں نیکو کار کو خطا کار سمجھا جاتا ہے , اور ظالم اپنی سرکشی میں بڑھتا ہی جاتا ہے . جن چیزوں کو ہم جانتے ہیں , ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور جن چیزوں کو نہیں جانتے , انہیں دریافت نہیں کرتے اور جب تک مصیبت آ نہیں جاتی, ہم خطرہ محسوس نہیں کرتے . (اس زمانے کے ) لوگ چار طرح کے ہیں . کچھ وہ ہیں جنہیں مفسدہ انگیزی سے مانع صرف ان کے نفس کا بے وقعت ہونا , ان کی دھار کا کند ہونا. اور ان کے پاس مال کا حاکم ہونا ہے اور کچھ لوگ وہ ہیں جو تلواریں سونتے ہوئے علانیہ شر پھیلا رہے ہیں اور انہوں نے اپنے سوار اور پیادے جمع کر رکھے ہیں . صرف کچھ مال بٹورنے کسی دستہ کی قیادت کرنے , یا منبر پر بلند ہونے کے لئے انہوں نے اپنے نفسوں کو وقف کر دیا ہے اور دین کو تباہ و برباد کر ڈالا ہے کتنا ہی بُرا سودا ہے کہ تم دنیا کو اپنے نفس کی قیمت اور اللہ کے یہاں کی نعمتوں کا بدل قرار دے لو. اور کچھ لوگ وُہ ہیں جو آخرت والے کاموں سے دنیا طلبی کرتے ہیں اور یہ نہیں کرتے کہ دنیا کے کاموں سے بھی آخرت کا بنانا مقصود رکھیں . یہ اپنے اوپر بڑا سکون و وقار طاری رکھتے ہیں . آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہیں اور دامنوں کو اوپر کی طرف سمیٹتے رہتے ہیں اور اپنے نفسوں کو اس طرح سنوار لیتے ہیں کہ لوگ انہیں امین سمجھ لیں . یہ لوگ اللہ کی پردہ پوشی سے فائدہ اٹھا کر اس کا گناہ کرتے ہیں اور کچھ لوگ وہ ہیں جنہیں ان کے نفسوں کی کمزوری اور سازو سامان کی نافراہمی ملک گیری کے لئے اٹھنے نہیں دیتی. ان حالات نے انہیں ترقی و بلندی حاصل کرنے سے درماندہ و عاجز کر دیا ہے . اس لئے قناعت کے نام سے انہوں نے اپنے آپ کو آراستہ کر رکھا ہے اور زاہدوں کے لباس سے اپنے کو سج لیا ہے . حالانکہ انہیں ان چیزوں سے کسی وقت کبھی کوئی لگاؤ نہیں رہا. اس کے بعد تھوڑے سے وہ لوگ رہ گئے جن کی آنکھیں آخرت کی یاد اور حشر کے خوف سے جھکی ہوئی ہیں . جو دنیا والوں سے الگ تھلگ تنہائی میں پڑے ہیں . اور کچھ خوف و ہراس کے عالم میں ذلتیں سہہ رہے ہیں , اور بعض نے اس طرح چپ سادھ لی ہے کہ گویا ان کے منہ باندھ دیئے گئے ہیں . کچھ خلوص سے دُعائیں مانگ رہے ہیں کچھ غم زدہ و درد رسیدہ ہیں . جنہیں خوف نے گمنامی کے گوشہ میں بٹھا دیا ہے اور خستگی و درماندگی ان پر چھائی ہوئی ہے وہ ایک شور دریا میں ہیں . (کہ باوجود پانی کی کثرت کے پھر وہ پیاسے ہیں ) ان کے منہ بند اور دل مجروح ہیں . انہوں نے لوگوں کو اتنا سمجھایا, بجھایا, کہ وہ اکتا گئے اور اتنا ان پر جبر کیا گیا کہ وہ بالکل دب گئے اور اتنے قتل کئے گئے کہ ان میں (نمایاں ) کمی ہوگئی . اس دنیا کو تمہاری نظروں میں کیکر کے چھلکوں اور ان کے ریزوں سے بھی زیادہ حقیر و پست ہونا چاہیئے اور اپنے قبل کے لوگوں سے تم عبرت حاصل کر لو. اس سے قبل کہ تمہارے حالات سے بعد والے عبرت حاصل کریں اور اس دنیا کی بُرائی محسوس کرتے ہوئے اس سے قطع تعلق کرو. اس لئے کہ اس نے آکر میں ایسوں سے قطع تعلق کر لیا جو تم سے زیادہ اس کے والہ و شبدا تھے .

سید رضی فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اپنی لاعلمی کی بنائ پر اس خطبہ کو معاویہ کی طرف منسوب کیا ہے حالانکہ یہ امیر المومنین علی السلام کا کلا م ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں . بھلا سونے کی متی سے کای نسبت اور شیریں پانی کو شور پانی سے کیا ربط . چنانچہ اس وادی میں راہ دکھانے والے ماہرِ فن اور پرکھنے والے با بصیرت عمر و ابن بحر جا حظ نے اس کی خبر دی ہے , اور اپنی کتاب »البیان والتبین« میں اس کاذکر کیا ہے اور ان لوگوں کا بھی ذکر کیا ہے , جنہوں نے اسے معاویہ کی طرف منسوب کی اہے اس کے بعد کہا ہے کہ یہ کلام علی علیہ السلام کے کلام سے ہُو بہُو ملتا جلتا ہے اور اس میں جو لوگوں کی تقسیم اور ان کی ذلت و پستی اور خوف و ہراس کی حالت بیان کی ہے , یہ آپ ہی کے مسلک سے میل کھاتی ہے . ہم نے تو کسی حالت میں بھی معاویہ کو زاہدوں کے انداز اور عابدوں کے طریقہ پر کلام کرتے ہوئے نہیں پایا.



No comments: