- و من كلام له ( عليه السلام ) في ذم اختلاف العلماء في الفتيا و فيه يذم أهل الرأي و يكل أمر الحكم في أمور الدين للقرآن :
ذم أهل الرأي
تَرِدُ عَلَى أَحَدِهِمُ الْقَضِيَّةُ فِي حُكْمٍ مِنَ الْأَحْكَامِ فَيَحْكُمُ فِيهَا بِرَأْيِهِ ثُمَّ تَرِدُ تِلْكَ الْقَضِيَّةُ بِعَيْنِهَا عَلَى غَيْرِهِ فَيَحْكُمُ فِيهَا بِخِلَافِ قَوْلِهِ ثُمَّ يَجْتَمِعُ الْقُضَاةُ بِذَلِكَ عِنْدَ الْإِمَامِ الَّذِي اسْتَقْضَاهُمْ فَيُصَوِّبُ آرَاءَهُمْ جَمِيعاً وَ إِلَهُهُمْ وَاحِدٌ وَ نَبِيُّهُمْ وَاحِدٌ وَ كِتَابُهُمْ وَاحِدٌ
نهج البلاغة : ........... ............ صفحة : (61)
أَ فَأَمَرَهُمُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ بِالِاخْتِلَافِ فَأَطَاعُوهُ أَمْ نَهَاهُمْ عَنْهُ فَعَصَوْهُ .
الحكم للقرآن
خطبہ 18: فتاویٰ میں علماء کے مختلف الآرا ہونے کی مذمت میں فرمایا :
جب ان میں سے کسی ایک کے سامنے کوئی معاملہ فیصلہ کے لئے پیش ہوتا ہے تو وہ اپنی رائے سے اس کا حکم لگا دیتا ہے . پھر وہی مسئلہ بعینہٌ دوسرے کے سامنے پیش ہوتا ہے تو وہ اس پہلے کے حکم کے خلاف حکم دیتا ہے پھر یہ تمام کے تمام قاضی اپنے اس خلیفہ کے پاس جمع ہوتے ہیں جس نے انہیں قاضی بنا رکھا ہے تو وہ سب کی رایوں کو صحیح قرار دیتا ہے . حالانکہ ان کا اللہ ایک , نبی ایک اور کتاب ایک ہے .(انہیں غور تو کرنا چاہیئے ) کیا اللہ نے انہیں اختلاف کا حکم دیا تھا اور یہ اختلاف کر کے اس کے حکم بجا لاتے ہیں یا اس نے تو حقیقتاً اختلاف سے منع کیا ہے اور یہ اختلاف کر کے عمداً اس کی نا فرمانی کرنا چاہتے ہیں . یا یہ کہ اللہ نے دین کو ادھورا چھوڑا دیا تھا اورا ن سے تکمیل کے لئے ہاتھ بٹانے کا خواہشمند ہوا تھا یا یہ کہ اللہ کے شریک تھے کہ انہیں اس کے احکام میں دخل دینے کا حق ہو, اور اس پر لازم ہو کہ وہ اس پر رضا مند رہے یا یہ کہ اللہ نے تو دین کو مکمل اتارا تھا مگر اس کے رسول نے اس کے پہنچانے اور ادا کرنے میں کوتاہی کی تھی. اللہ نے قرآن میں تو یہ فرمایا ہے کہ ہم نے کتاب میں کسی چیز کے بیان کرنے میں کوتاہی نہیں کی اور اس میں ہر چیز کا واضح بیان کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ قرآن کے بعض حصے بعض حصوں کی تصدیق کرتے ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں . چنانچہ اللہ کا یہ ارشاد ہے کہ اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی اور کا بھیجا ہوا ہوتا , تو تم اس میں کافی اختلاف پاتے اور یہ کہ اس کا ظاہر خوش نما اور باطن گہرا ہے . نہ اس کے عجائبات مٹنے والے اور نہ اس کے لطائف ختم ہونے والے ہیں . ظلمت (جہالت ) کا پردہ اسی سے چاک کیا جاتا ہے .
یہ مسئلہ محل نزاع ہے کہ جس چیز پر شرع کی رو سے قطعی دلیل قائم نہ ہو . آیا واقع میں اس کا کوئی حکم ہوتا بھی ہے یا نہیں ابو الحسن اشعری اورا نکے استاد ابو علی جبائی کا مسلک یہ ہے کہ اللہ نے اس کے لئے کوئی حکم تجویز ہی نہیں کیا بلکہ ایسے موارد میں تشریح و حکم کا اختیار مجتہدین کو سونپ دیا ہے کہ وہ اپنی صوبدید سے جسے حرام ٹھہرالیں اسے واقعی حرام قرار دے دیا جائے گا. اور جسے حلال کر دیں , اسے واقعی حلال سمجھ لیا جائے گا اور اگر کوئی کچھ کہے اور کوئی کچھ تو پڑھ جتنی ان کی رائے ہوں گی اتنے احکام بنتے چلے جائیں گے اور ان میں سے ہر ایک کا نقطہ نگاہ حکم واقعی کا ترجمان ہو گا. مثلاً اگر ایک مجتہد کی رائے یہ ٹھہری کہ نبیذ حرام ہے اور دوسرے مجتہد کی رائے یہ ہوئی کہ نبیذ حلال ہے تو وہ واقع میں حلال بھی ہو گی اور حرام بھی. یعنی جو اسے حرام سمجھے اس کے لئے پینا ناجائز ہے اور جو حلال سمجھ کر پئے اس کے لئے پینا جائز ہے . چنانچہ شہر ستانی اس تصویب کے متعلق تحریر کرتے ہیں .
اصولیین کا ایک گروہ اس کے قائل ہے کہ جن مسائل میں اجتہاد کیا جاتا ہے , ان کے لئے جوا ز و عدم جواز اور حلال و حرام کے اعتبار سے کوئی طے شدہ حکم نہیں ہوتا, بلکہ جو مجتہد کی رائے ہوتی ہے , وہی خدا کا حکم ہوتا ہے . کیوں کہ حکم کا قرار پانا ہی اس پر موقوف ہے کہ وہ کسی مجتہد کے نظرئیے سے طے ہو . اگر یہ چیز نہ ہو گی تو حکم بھی ثابت نہ ہو گا. اور اس مسلک کی بنائ پر ہر مجتہد اپنی رائے میں درست ہو گا.
اس صورت میں مجتہد کو خطا سے اس لئے محفوط سمجھا جاتا ہے کہ خطا تو وہاں متصور ہو ا کرتی ہے . جہاں کوئی قدم واقع کے خلاف اٹھے اور جہاں کوئی واقع ہی نہ ہو وہاں خطا کے کیا معنی اس کے علاوہ اس صورت میں بھی مجتہد سے خطا کا امکان نہ ہو گا کہ جب یہ نظریہ قائم کر لیا جائے کہ مجتہدین کی آئندہ جتنی رائے ہونے والی تھیں اللہ نے ان سے باخبر ہونے کی بنا پر پہلے ہی سے اتنے احکام بنا رکھے ہیں کہ جس کی وجہ سے ہر رائے حکم ُ واقعی کے مطابق ہی پڑتی ہے یا یہ کہ اس نے یہ التزام کر رکھا ہے کہ مجتہدین کی رایوں کو ان طے شدہ احکام سے باہر نہ ہونے دے گا, یا کہ برسبیل ُ اتفاق ان میں سے ہر ایک کی رائے ان احکام میں سے کسی ایک نہ ایک حکم سے بہر صورت موافقت کر ے گی.
لیکن فرقہ امامیہ کا نظریہ یہ ہے کہ اللہ نے نہ کسی کو شریعت سازی کا حق دیا ہے اور نہ کسی چیز کے حکم کو مجتہد کی رائے کے تابع ٹھہرایا ہے اور نہ آرائ کے مختلف ہونے کی صورت میں ایک ہی چیز کے لئے واقع میں متعدد احکامات بنائے ہیں . البتہ جب مجتہد کی حکم واقعی تک رسائی نہیں ہونے پاتی تو تلاش و تفحص کے بعد جو نظریہ ا س کا قرار پاتا ہے . اس پر عمل پیرا ہونا اس کے لئے اور اس کے مقلدین کے لئے کفایت کر جاتا ہے . لیکن اس کی حیثیت صرف حکم ظاہری کی ہوتی ہے جو حکم ُ واقعی کا بدل ہے اور ایسی صورت میں حکم ُ واقعی کے چھوٹ جانے پر وہ معذور قرار پاتا ہے . کیونکہ اس نے اس دریائے نا پیدا کنار میں غوطہ لگانے اور کی تہ تک پہنچنے میں کوئی کوشش اٹھا نہیں رکھی . مگر اس پر کیا اختیار کہ درِ شاہوار کے بجائے خالی صدف ہی اس کے ہاتھ لگے . لیکن وہ یہ نہیں کہتا کہ دیکھنے والے اسے موتی سمجھیں اور موتی کے بھاؤ بکے . یہ دوسری بات ہے کہ کوششوں کا پرکھنے والا اس کی بھی آدھی قیمت لگا دے تاکہ نہ اس کی محنت اکارت جائے اور نہ اس کی ہمت ٹوٹنے پائے. اگر اس تصویب کے اصول کو مان لیا جائے تو پھر ہر فتویٰ کو درست اور ہر قول کو صحیح ماننا پڑے گا. جیسا کہ میبذی نے فواتح میں لکھا ہے .
» حق دریں مسئلہ مذہب اشعری است پس تو اند بود کہ مذاہب متناقصہ ہمہ حق باشند زنہار درشانِ علمائ گمان بد مبرو زبان بطعن ایشاں مکشا.«
جب متضاد نظرئیے اور مختلف فتو ے تک صحیح تسلیم کئے جاتے ہیں تو حیرت ہے کہ بعض نمایاں افراد کے اقدامات کو خطائے اجتہادی سے کیوں تعبیر کیا جاتا ہے . جب کہ مجتہد کے لئے خطا کا تصور ہی نہیں ہو سکتا. اگر عقیدہ تصویب صحیح ہے تو امیر شام اور ام المومنین کے اقدامات درست ماننا پڑیں گے اور اگر ان کے اقدامات غلط سمجھے جاتے ہیں تو تسلیم کیجئے کہ اجتہاد ٹھوکر بھی کھا سکتا ہے اور تصویب کا عقیدہ غلط ہے اور یہ اپنے مقام پر طے ہوتا رہے گا کہ ام المومنین کے اجتہاد میں انو ثیت تو سدِ راہ نہیں ہوتی یا امیر شام کا یہ اجتہاد تھا یا کچھ اور . بہر صورت یہ تصویب کا عقیدہ خطاؤں کو چھپانے اور غلطیوں پر حکمِ الٰہی کی نقاب ڈالنے کے لئے ایجاد کیا گیا تھا تاکہ نہ مقصد برآریوں میں روک پیدا ہو , اور نہ من مانی کاروائیوں کے خلاف کوئی زبان کھولے سکے.امیر المومنین نے اس خطبہ میں ایسے ہی لوگوں کا ذکر کیا ہے جو اللہ کی راہ سے کٹ کر اور وحی الٰہی کی روشنی سے آنکھیں بند کر کے قیاس و رائے کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئے مارتے رہتے ہیں اور دین کو افکار و آرا کی آماجگاہ بنا کر نت نئے فتوے دیتے رہتے ہیں اور اپنے جی سے احکام گڑھ کر اختلافات کے شاخسانے چھوڑتے رہتے ہیں اور پھر تصویب کی بنائ پر تمام مختلف و متضاد احکام کو اللہ کی طرف سے سمجھ لیتے ہیں . گویا ان کا ہر حکم وحی الٰہی کا ترجمان کہ نہ ان کا کوئی حکم غلط ہو سکتا ہے اور نہ کسی موقعہ پر وہ ٹھوکر کھا سکتے ہیں . چنانچہ حضرت اس مسلک کے رود میں فرماتے ہیں کہ
جب اللہ ایک , کتاب ایک اور رسول ایک ہے , تو پھر دین بھی ایک ہی ہونا چاہئے اور جب دین ایک ہے تو ایک ہی چیز کے لئے مختلف و متضاد احکام کیونکر ہو سکتے ہیں . کیونکہ حکم تضاد اس صورت میں ہوا کرتا ہے کہ جب حکم دینے والا پہلا حکم بھول چکا ہو, یا اس پر غفلت یا مدہوشی طاری ہو گئی ہو, ابا جان بوجھ کر ان بھول بھلیوں میں رکھنا چاہتا ہو اور اللہ و رسول ان چیزوں سے بلند تر ہیں . لہذا س اختلاف کو ان کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا. بلکہ یہ اختلافات ان لوگوں کے خیالات و آرائ کا نتیجہ ہیں کہ جنہوں نے قیاس آرائیوں سے دین کے نقوش کو مسخ کرنے کا تہہ کر لیاتھا.
(ّ2) اللہ نے یا تو ان اختلافات سے منع کیا ہو گا یا اختلاف پیدا کرنے کا حکم دیا ہو گا. اگر حکم دیا ہے تو وہ کہاں اور کس مقام پر ہے اور ممانعت کو سننا چاہو تو قرآن کہتا قل اللہ اذن لکم ام علی اللہ تفترون ان کو کہو کہ کیا اللہ نے تمہیں اجازت دے دی ہے یا تم اللہ پر افترائ کرتے ہو . » یعنی ہر وہ چیز جو بحکم خدا نہ ہو وہ افترا ہے اور افتراع ممنوع و حرام ہے اور افترا پر دازوں کے لئے عقبیٰ میں نہ تو زو کامرانی ہے نہ فلاح و بہبود,چنانچہ ارشادِ قدرت ہے :.
جو تمہاری زبانوں پر جھوٹی باتیں چڑھی ہوئی ہیں . انہیں کہا نہ کرو اور نہ اپنی طرف سے حکم لگا یا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تاکہ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے لگو اور جو افترا پر دازیاں کرتے ہیں وہ کامیابی و کامرانی سے ہمکنا ر نہ ہوں گے.
اگر اللہ ہی نے دین کو نا تمام رکھاہے تو ادھورا چھوڑنے کی یہ وجہ ہو گی کہ اس نے اپنے بندوں سے یہ چاہا ہو گا کہ وہ شریعت کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اس کا ہاتھ بٹائیں اور شریعت سازی میں اس کے شریک ہوں تو یہ عقیدہ سرا سر شرک ہے.
اگر اس نے دین کو مکمل اتارا ہے تو پھر پیغمبر نے اس کے پہنچانے میں کوتاہی کی ہو گی تاکہ دوسروں کے لئے اس میں قیاس و رائے کی گنجائش رہے تو معاذ اللہ یہ پیغمبر کی کمزور ی اور انتخاب ُ قدرت پر بد نما دھبہ ہو گا.
اللہ سبحانہ نے قرآن میں فرمایاہے کہ ہم نے کتاب میں کسی چیز کو اٹھا نہیں رکھا ور ہر ایک چیز کو کھو ل کر بیان کر دیاہے تو پڑھ قرآن سے ہٹ کر جو حکم تراشا جائے گا ہو شریعت سے باہر ہو گا اور اس کی اساس علم و بصیرت اور قرآن و سنت پر ہو گی. بلکہ اپنی ذاتی رائے اور اپنا ذاتی فیصلہ ہو گا. جس کا دین و مذہب سے کوئی لگاؤ نہیں سمجھا جا سکتا.
قرآن دین کا مبنیٰ و ماخذ اور احکامِ شریعت کا سرچشمہ ہے . اگر احکامِ شریعت مختلف اور جُدا جدا ہوتے تو پھر اس میں بھی اختلاف ہونا چاہئے تھا اور اس میں اختلاف ہوتا تو یہ اللہ کا کلام نہ رہتا اور جب یہ اللہ کا کلام ہے تو پھر شریعت کے احکام مختلف ہو ہی نہیں سکتے مختلف و متضاد نظریوں کو صحیح سمجھ لیا جائے اور قیاسی فتوؤں کو اس کا حکم قرار دے دیا جائے.
No comments:
Post a Comment