- و من كلام له ( عليه السلام ) يعني به الزبير في حال اقتضت ذلك و يدعوه للدخول في البيعة ثانية :
يَزْعُمُ أَنَّهُ قَدْ بَايَعَ بِيَدِهِ وَ لَمْ يُبَايِعْ بِقَلْبِهِ فَقَدْ أَقَرَّ بِالْبَيْعَةِ وَ ادَّعَى الْوَلِيجَةَ فَلْيَأْتِ عَلَيْهَا بِأَمْرٍ يُعْرَفُ وَ إِلَّا فَلْيَدْخُلْ فِيمَا خَرَجَ مِنْهُ .
خطبہ 8: جب زبیر نے کہا کہ اس نے دل سے بیعت نہیں کی تھی تو فرمایا
یہ کلام زبیر کے متعلق اس وقت فرمایا جب کہ حالات اسی قسم کے بیان کے مقتضی تھے .
وہ ایسا ظاہر کرتا ہے کہ اس نے بیعت ہاتھ سے کر لی تھی مگر دل سے نہیں کی تھی. بہر صورت اس نے بیعت کا تو اقرار کر لیا . لیکن اس کا یہ ادعا کہ اس کے دل میں کھوٹ تھا تو اسے چاہئے کہ اس دعویٰ کے لئے کوئی دلیل واضح پیش کرے ورنہ جس بیعت سے منحرف ہوا ہے اس میں واپس آئے.
جب زبیر ابن عوام نے امیر المومنین کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بعد بیعت شکنی کی تو وہ اس کے لئے کبھی یہ عذر کرتے تھے کہ مجھے بیعت کے لئے مجبور کیا گیا تھا اور مجبوری کی بیعت کوئی بیعت نہیں ہوا کرتی اور کبھی یہ فرماتے تھے کہ یہ تو صرف دکھاوے کی بیعت تھی. میرا دل اس سے ہمنوانہ تھا. گویا کہ وہ خود ہی اپنی زبان سے اپنے ظاہر و باطن کے مختلف ہونے کا اعتراف کر لیا کرتے تھے. لیکن یہ عذر ایسا ہی ہے جیسے کوئی اسلام لانے کے بعد منحرف ہو جائے اور سزا سے بچنے کے لئے یہ کہدے کہ میں نے صرف زبان سے اسلام قبول کیا تھا. دل سے نہیں مانا تھا تو ظاہر ہے کہ یہ عذر مسموع نہیں ہو سکتا اور نہ اس ادعا کی کی بنا پر وہ سزا سے بچ سکتا ہے . اگر انہیں یہ شبہ تھا کہ حضرت کے اشارے پر عثمان کا خون بہایا گیا ہے تو یہ شبہ اس وقت بھی دامن گیر ہونا چاہیئے تھا کہ جب اطاعت کے لئے حلف اٹھایا جا رہا تھا اور بیعت کے لئے ہاتھ بڑھ رہا تھا یا یہ کہ اب توقعات ناکام ہوتے ہوئے نظر آئے اور کہیں اور سے امید کی جھلکیاں دکھائی دینے لگی تھیں .
No comments:
Post a Comment