Saturday 18 April 2009

خطبہ ۴۶ و اردو ترجمہ

- و من كلام له ( عليه السلام ) عند عزمه على المسير إلى الشام و هو دعاء دعا به ربه عند وضع رجله في الركاب :

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَ كَآبَةِ الْمُنْقَلَبِ وَ سُوءِ الْمَنْظَرِ فِي الْأَهْلِ وَ الْمَالِ وَ الْوَلَدِ اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ وَ أَنْتَ الْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ وَ لَا يَجْمَعُهُمَا غَيْرُكَ لِأَنَّ الْمُسْتَخْلَفَ لَا يَكُونُ مُسْتَصْحَباً وَ الْمُسْتَصْحَبُ لَا يَكُونُ مُسْتَخْلَفاً .

قال السيد الشريف رضي الله عنه : و ابتداء هذا الكلام مروي عن رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) و قد قفاه أمير المؤمنين ( عليه السلام ) بأبلغ كلام و تممه بأحسن تمام من قوله " و لا يجمعهما غيرك " إلى آخر الفصل .

خطبہ 46: جب شام کی طرف روانہ ہونے کا قصد کیا, تو یہ کلمات فرمائے .

اے اللہ ! مَیں سفر کی مشقت اور واپسی کے اندوہ اور اہل ومال کی بدحالی کے منظر سے پناہ مانگتا ہوں . اے اللہ ! تو ہی سفر میں رفیق اور بال بچوں کا محافظ ہے سفر و حضر کو تیرے علاوہ کوئی یکجا نہیں کر سکتا , کیونکہ جسے پیچھے چھوڑا جائے وہ ساتھی نہیںہو سکتا , اور جسے ساتھ لیا جائے اسے پیچھے نہیں چھوڑا جا سکتا .

سید رضی فرماتے ہیں کہ اس کلام کا ابتدائی حصہ رسول سے منقول ہے . امیرالمومنین علیہ السّلام نے اس کے آخر میں بلیغ ترین جملوں کا اضافہ فرما کر اسے نہایت احسن طریق سے مکم کر دیا ہے , اور وہ اضافہ (سفر سو حضر کر تیرے علاوہ کوئی یکجا نہیں کر سکتا) سے لے کر آخر کلام تک ہے .

خطبہ ۴۵ و اردو ترجمہ

- و من خطبة له ( عليه السلام ) و هو بعض خطبة طويلة خطبها يوم الفطر و فيها يحمد الله و يذم الدنيا :

حمد الله

الْحَمْدُ لِلَّهِ غَيْرَ مَقْنُوطٍ مِنْ رَحْمَتِهِ وَ لَا مَخْلُوٍّ مِنْ نِعْمَتِهِ وَ لَا مَأْيُوسٍ مِنْ مَغْفِرَتِهِ وَ لَا مُسْتَنْكَفٍ عَنْ عِبَادَتِهِ الَّذِي لَا تَبْرَحُ مِنْهُ رَحْمَةٌ وَ لَا تُفْقَدُ لَهُ نِعْمَةٌ .

ذم الدنيا

وَ الدُّنْيَا دَارٌ مُنِيَ لَهَا الْفَنَاءُ وَ لِأَهْلِهَا مِنْهَا الْجَلَاءُ وَ هِيَ حُلْوَةٌ خَضْرَاءُ وَ قَدْ عَجِلَتْ لِلطَّالِبِ وَ الْتَبَسَتْ بِقَلْبِ النَّاظِرِ فَارْتَحِلُوا مِنْهَا بِأَحْسَنِ مَا بِحَضْرَتِكُمْ مِنَ الزَّادِ وَ لَا تَسْأَلُوا فِيهَا فَوْقَ الْكَفَافِ وَ لَا تَطْلُبُوا مِنْهَا أَكْثَرَ مِنَ الْبَلَاغِ .

خطبہ 45: اللہ کی عظمت و جلالت کے بارے میں

تمام حمد اس اللہ کے لئے ہے جس کی رحمت سے ناامیدی نہیں اور جس کی نعمتوں سے کسی کا دامن خالی نہیں . نہ اس کی مغفرت سے کوئی مایوس ہے , نہ اس کی عبادت سے کسی کو عار ہو سکتا ہے , اور نہ اس کی رحمتوں کا سلسلہ ٹوٹتا ہے , اور نہ اس کی نعمتوں کا فیضان کبھی رکتا ہے . دنیا ایک ایسا گھر ہے جس کے لئے نفا طے شدہ امر ہے . اور اس کے بسنے والوں کے لئے یہاں سے بہر صورت نکلنا ہے . یہ دنیا شیریں و شاداب ہے . اپنے چاہنے والے کی طرف تیزی سے بڑھتی ہے اور دیکھنے والے دل میں سما جاتی ہے , جو تمہارے پاس بہتر سے بہتر توشہ ہو سکے . اسے لے کر دنیا سے چل دینے کے لئے تیار ہو جاؤ. اس دنیا میں اپنی ضرورت سے زیادہ نہ چاہو, اور جس سے زندگی بسر ہو سکے اس سے زیادہ کی خواہش نہ کرو.


خطبہ ۴۴ و اردو ترجمہ

- و من كلام له ( عليه السلام ) لما هرب مصقلة بن هبيرة الشيباني إلى معاوية ، و كان قد ابتاع سبي بني ناجية من عامل أمير المؤمنين عليه السلام و أعتقهم، فلما طالبه بالمال خاس به و هرب إلى الشام :

قَبَّحَ اللَّهُ مَصْقَلَةَ فَعَلَ فِعْلَ السَّادَةِ وَ فَرَّ فِرَارَ الْعَبِيدِ فَمَا أَنْطَقَ مَادِحَهُ حَتَّى أَسْكَتَهُ وَ لَا صَدَّقَ وَاصِفَهُ حَتَّى بَكَّتَهُ وَ لَوْ أَقَامَ لَأَخَذْنَا مَيْسُورَهُ وَ انْتَظَرْنَا بِمَالِهِ وُفُورَهُ .


خطبہ 44: (جب مصقلہ بن , مبیرہ شیبانی معاویہ کے پاس بھاگ گیا )

مصقلہ بن مبیرہ شیبانی معاوہ کے پاس بھاگ گیا چونکہ اس نے حضرت کے ایک عامل سے بنی ناجیہ کے کچھ اسیر خریدے تھے. جب امیر المومنین علیہ السّلام نے اس سے قیمت کا مطالبہ کیا, تو وہ بدیانتی کرتے ہوئے شام چلا گیا. جس پر آپ نے فرمایا.

خُدا مصقلہ کا بُرا کرے, کام تو اس نے شریفوں کا سا کیا, لیکن غلاموں کی طرح بھاگ نکلا. اس نے مدح کرنے والے کا منہ بولنے سے پہلے ہی بند کر دیااور توصیف کرنے والے کے قول کے مطابق اپنا عمل پیش کرنے سے پہلے ہی اسے خامو ش کر دیا. اگر وہ ٹھہرا رہتا تو ہم اس سے اتنا لے لیتے , جتنا اس کے لئے ممکن ہوتا, اور بقیہ کے لئے اس کے مال کے زیادہ ہونے کا انتظار کرتے .

تحکیم کے بعد جب خوارج نے سر اٹھایا , تو ان میں سے بنی ناجیہ کا ایک شخص خریت ابنِ راشد لوگوں کو بھڑکانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا, اور ایک جتھے کے ساتھ ماردھاڑ کرتا ہوا مدائن کے رُخ پر چل پڑا.

امیر المومنین نے اس کی روک تھام کے لئے زیاد ابن حفصہ کو ایک سو تین آدمیوں کے ساتھ روانہ کیا. چنانچہ جب مدائن میں دونوں فریق کا آمنا سامنا ہوا , تو تلواریں لے کر ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے. ابھی ایک آدھ جھڑپ ہی ہونے پائی تھی کہ شام کا اندھیرا پھیلنے لگا , اور جنگ روک دینا پڑی. جب صبح ہوئی تو زیاد کے ساتھیوں نے دیکھا کہ خوارج کے پانچ لاشے پڑے ہیں اور خود میدان چھوڑ کر جا چکے ہیں. یہ دیکھ کر زیاد اپنے آدمیوں کے ساتھ بصرہ کی طرف چل پڑا. تو وہاں سے معلوم ہوا کہ خوارج اہواز کی طرف چلے گئے ہیں. زیاد نے سپاہ کی قلت کی وجہ سے قدم روک لئے اور امیر المومنین علیہ السّلام کو اس کی اطلاع دی. حضرت نے زیاد کو واپس بلوا لیا اور معقل ابن قیس ریاحی کو دو ہزار نبرد آزماؤں کے ہمراہ ہواز کی طرف روانہ کیا, اور والی بصرہ عبداللہ ابنِ عباس کو تحریر فرمایا کہ بصرہ کے دو ہزار شمشیر زن معقل کی کمک کے لئے بھیج دو. چنانچہ بصرہ کادستہ بھی ان سے اہواز میں جا ملا. اور یہ پوری طرح منظم ہو کر دشمن پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہو گئے . لیکن خریت اپنے لاؤ لشکر کو لے کر را مہر مز کی پہاڑیوں کی طرف چل دیا. یہ لوگ بھی اس کا پیچھا کرتے ہوئے آگے بڑھے, اور ان پہاڑیوں کے قریب اس کو آ لیا. دونوں نے اپنے اپنے لشکر کی صف بندی کی , اور ایک دوسرے پر حملے شروع کر دیئے. اس جھڑپ کا نتیجہ یہ ہوا کہ خوارج کے تین سو ستر آدمی میدن میں کھیت رہے , اور باقی بھاگ کھڑے ہوئے . معقل نے اپنی کارگذاری, اور دشمن کے فرار کی امیرالمومنین علیہ السّلام کو اطلاع دی تو حضرت نے تحریر فرمایا کہ ابھی تم ان کا پیچھا کرو اور اس طرح انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دو, کہ پھر سر اٹھانے کا ان میں دم نہ رہے . چنانچہ اس فرمان کے بعد وہ اپنا لشکر لے کر آگے بڑھے, اور بحرِ فارس کے ساحل پر اسے پالیا کہ جہاں اس نے لوگوں کو بہلا پھسلا کر اپنا ہمنوا بنا لیا تھا, اور ادھر اُدھر سے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر اچھی خاصی جمعیت بہم پہنچالی تھی. جس وقت معقل وہاں پر پہنچے تو آپ نے پہلے امان کا جھنڈا بلند کیا اور اعلان کیا کہ جو لوگ ادھر ادھرسے جمع ہو گئے ہیں, وہ الگ ہو جائیں ان سے تعرض نہ کیا جائے گا. اس اعلان کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی قوم کے علاوہ دوسرے لوگ چھٹ گئے اس نے انہی کو منظم کیا, اور جنگ چھیڑ دی. مگر کوفہ و بصرہ کے سر فروشوں نے تیغ زنی کے وہ جوہر دکھائے کہ دیکھتے ہی دیکھتے باغیوں کے ایک سو ستر آدمی مارے گئے , اور خریت سے نعمان ابن صہبان نے دو دو ہاتھ کئے اور آخر اسے مار گرایا جس کے گرتے ہی دشمن کے قدم اکھڑ گئے , اور وہ میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے . اس کے بعد معقل نے ان کی قیام گاہوں میں جتنے مَرد , عورتیں اور بچے پائے انہیں ایک جگہ جمع کیا. ان میں مسلمان تھے ان سے بیعت لے کر انہیں رہا کر دیا. اور جو مرتد ہو گئے تھے انہیں اسلام قوبل کرنے کے لئے کہا. چنانچہ ایک بُوڑھے نصرانی کے علاوہ سب نے اسلام قبول کر کے رہائی پائی اور بوڑھے کو قتل کر دیا گیا. اور جن بنی ناجیہ کے عیسائیوں نے اس شورش انگیزی میں حصہ لیا تھا. انہیں ان کے اہل و عیال سمیت کہ جن کی تعداد پانچ سو تھی اپنے ہمراہ لے لیا. اور جب معقل ارد شیر خرہ (ایران کا ایک شہر) پہنچے تو یہ قیدی وہاں کے حاکم مصقلہ ابن ہبیرہ کے سامنے چیخے چلائے , اور گڑ گڑا کر اس سے التجائیں کیں کہ ان کی رہائی کی کوئی صورت کی جائے. مصقلہ نے ذہل ابن حارث کے ذریعے معقل کو کہلوایا کہ ان اسیروں کو میرے ہاتھ بیچ دو. معقل نے اسے منظور کیا, اور پانچ لاکھ درہم میں وہ اسیر اس کے ہاتھ بیچ ڈالے اور اس سے کہا کہ ان کی قیمت جلد از جلد امیر المومنین علیہ السّلام کو بھیج دو. اس نے کہا میں پہلی قسط ابھی بھیج رہا ہوں, اور بقیہ قسطیں بھی جلد بھیج دی جائیں گی. جب معقل امیرالمومنین علیہ السّلام کے پاس پہنچے , تو یہ سارا واقعہ ان سے بیان کیا. حضرت نے اس اقدام کو سراہا اور کچھ دنوں تک قیمت کا انتظار کیا. مگر مصقلہ نے ایسی چُپ سادھ لی کہ گویا اس کے ذمہ کوئی مطالبہ ہی نہیں ہے . آخر حضرت نے ایک قاصد اس کی طرف روانہ کیا اور اسے کہلوا بھیجا کہ یا تو قیمت بھیجو, یا خود آؤ, وہ حضرت کے فرمان پر کُوفہ آیا, اور قیمت طلب کرنے پر دو لاکھ درہم پیش کر دیئے اور بقایا مطالبہ سے بچنے کے لئے معاویہ کے پاس چلا گیا, جس نے اسے طبرستان کا حاکم بنا دیا. حضرت کو جب اس کا علم ہوا , تو آپ نے یہ کلمات ارشاد فرمائے جن کا ماحصل یہ ہے کہ اگر وہ ٹھہرا رہتا تو ہم مال کی وصولی میں اس سے رعایت کرتے اور اس کی مالی حالت درست ہونے کا انتظار کرتے . لیکن وہ تو ایک نمائشی کا رنامی دکھا کر غلاموں کی طرح بھاگ نکلا. ابھی اس کی بلند حوصلگی کے چرچے شروع ہی ہوئے تھے کہ زبانوں پر اس کی دنائت و پستی کے تذکرے آنے لگے.