- و من كلام له ( عليه السلام ) في صفة من يتصدى للحكم بين الأمة و ليس لذلك بأهل و فيها أبغض الخلائق إلى اللّه صنفان :
الصنف الأول :
إنَّ أَبْغَضَ الْخَلَائِقِ إِلَى اللَّهِ رَجُلَانِ رَجُلٌ وَكَلَهُ اللَّهُ إِلَى نَفْسِهِ فَهُوَ جَائِرٌ عَنْ قَصْدِ السَّبِيلِ مَشْغُوفٌ بِكَلَامِ بِدْعَةٍ وَ دُعَاءِ ضَلَالَةٍ فَهُوَ فِتْنَةٌ لِمَنِ افْتَتَنَ بِهِ ضَالٌّ عَنْ هَدْيِ مَنْ كَانَ قَبْلَهُ مُضِلٌّ لِمَنِ اقْتَدَى بِهِ فِي حَيَاتِهِ وَ بَعْدَ وَفَاتِهِ حَمَّالٌ خَطَايَا غَيْرِهِ رَهْنٌ بِخَطِيئَتِهِ .
الصنف الثاني :
وَ رَجُلٌ قَمَشَ جَهْلًا مُوضِعٌ فِي جُهَّالِ الْأُمَّةِ عَادٍ فِي أَغْبَاشِ الْفِتْنَةِ عَمٍ بِمَا فِي عَقْدِ الْهُدْنَةِ قَدْ سَمَّاهُ أَشْبَاهُ النَّاسِ عَالِماً وَ لَيْسَ بِهِ بَكَّرَ فَاسْتَكْثَرَ مِنْ جَمْعٍ مَا قَلَّ مِنْهُ خَيْرٌ مِمَّا كَثُرَ حَتَّى إِذَا ارْتَوَى مِنْ مَاءٍ آجِنٍ وَ اكْتَثَرَ مِنْ غَيْرِ طَائِلٍ جَلَسَ بَيْنَ النَّاسِ قَاضِياً ضَامِناً لِتَخْلِيصِ مَا الْتَبَسَ عَلَى غَيْرِهِ فَإِنْ نَزَلَتْ بِهِ إِحْدَى الْمُبْهَمَاتِ هَيَّأَ لَهَا حَشْواً رَثًّا مِنْ رَأْيِهِ ثُمَّ قَطَعَ بِهِ فَهُوَ مِنْ لَبْسِ الشُّبُهَاتِ فِي مِثْلِ نَسْجِ الْعَنْكَبُوتِ لَا يَدْرِي أَصَابَ أَمْ أَخْطَأَ فَإِنْ أَصَابَ خَافَ أَنْ يَكُونَ قَدْ أَخْطَأَ وَ إِنْ أَخْطَأَ رَجَا أَنْ يَكُونَ قَدْ أَصَابَ جَاهِلٌ خَبَّاطُ جَهَالَاتٍ عَاشٍ رَكَّابُ عَشَوَاتٍ لَمْ يَعَضَّ عَلَى الْعِلْمِ
نهج البلاغة : ........... ............ صفحة : (60)
بِضِرْسٍ قَاطِعٍ يَذْرُو الرِّوَايَاتِ ذَرْوَ الرِّيحِ الْهَشِيمَ لَا مَلِيٌّ وَ اللَّهِ بِإِصْدَارِ مَا وَرَدَ عَلَيْهِ وَ لَا أَهْلٌ لِمَا قُرِّظَ بِهِ لَا يَحْسَبُ الْعِلْمَ فِي شَيْءٍ مِمَّا أَنْكَرَهُ وَ لَا يَرَى أَنَّ مِنْ وَرَاءِ مَا بَلَغَ مَذْهَباً لِغَيْرِهِ وَ إِنْ أَظْلَمَ عَلَيْهِ أَمْرٌ اكْتَتَمَ بِهِ لِمَا يَعْلَمُ مِنْ جَهْلِ نَفْسِهِ تَصْرُخُ مِنْ جَوْرِ قَضَائِهِ الدِّمَاءُ وَ تَعَجُّ مِنْهُ الْمَوَارِيثُ إِلَى اللَّهِ أَشْكُو مِنْ مَعْشَرٍ يَعِيشُونَ جُهَّالًا وَ يَمُوتُونَ ضُلَّالًا لَيْسَ فِيهِمْ سِلْعَةٌ أَبْوَرُ مِنَ الْكِتَابِ إِذَا تُلِيَ حَقَّ تِلَاوَتِهِ وَ لَا سِلْعَةٌ أَنْفَقُ بَيْعاً وَ لَا أَغْلَى ثَمَناً مِنَ الْكِتَابِ إِذَا حُرِّفَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَ لَا عِنْدَهُمْ أَنْكَرُ مِنَ الْمَعْرُوفِ وَ لَا أَعْرَفُ مِنَ الْمُنْكَرِ .
خطبہ 17: ان لوگوں کے بارے میں جو امت کے فیصلے چکانے کے لئے مسند قضا پر بیٹھ جاتے ہیں حالانکہ وہ اس کے اہل نہیں ہوتے.
تمام لوگوں میں سب سے زیادہ خدا کے نزدیک مبغوض دو شخص ہیں . ایک وہ جسے اللہ نے اس کے نفس کے حوالے کر دیا ہو (یعنی اس کی بد اعمالیوں کی وجہ سے اپنی توفیق سلب کر لی) جس کے بعد وہ سیدھی راہ سے ہٹا ہوا بدعت کی باتوں پر فریفتہ اور گمراہی کی تبلیغ پر مٹا ہو ا ہے. وہ اپنے ہوا خواہوں کے لئے فتنہ اور سابقہ لوگوں کی ہدایت سے برگشتہ ہے. وہ تمام ان لوگوں کے لئے جو اس کی زندگی میں یا اس کی موت کے بعد اس کی پیروی کریں , گمراہ کرنے والا ہے . وہ دوسروں کے گناہوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے اور خود اپنی خطاؤں میں جکڑا ہوا ہے اور دوسرا شخص وہ ہے جس نے جہالت کی باتوں کو (ادھر ادھر سے ) بٹور لیا ہے . وہ امت کے جاہل افراد میں دوڑ دھوپ کرتا ہے اور فتنوں کی تاریکیوں میں غافل و مدہوش پڑا رہتا ہے اور امن و آشتی کے فائدوں سے آنکھ بند کر لیتا ہے . چند انسانی شکل و صورت سے ملتے جلتے ہوئے لوگوں نے اسے عالم کا لقب دے رکھا ہے . حالانکہ وہ عالم نہیں وہ ایسی (بے سود) باتوں کے سمیٹنے کے لئے منہ اندھیرے نکل پڑتا ہے جن کا نہ ہونا ہونے سے بہتر ہے . یہاں تک کہ جب وہ اس گندے پانی سے سیراب ہو لیتا ہے اور لا یعنی باتوں کو جمع کر لیتا ہے تو لوگوں میں قاضی بن کر بیٹھ جاتا ہے اور دوسروں پر مشتبہ رہنے والے مسائل کے حل کرنے کا ذمہ لے لیتا ہے اگر کوئی الجھا مسئلہ اس کے سامنے پیش ہوتا ہے تو اپنی رائے سے اس کے لئے بھرتی کی فرسودہ دلیلیں مہیا کر لیتا ہے اور پھر اس یقین پر بھی کر لیتا ہے . اس طرح و شبہات کے الجھاؤ میں پھنسا ہوا ہے . جس طرح مکڑی خود ہی اپنے جالے کے اندر . وہ خود یہ نہیں جانتا کہ اس نے صحیح حکم دیا ہے یا غلط. اگر صحیح بات بھی کہی ہو , تو اسے یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں غلط نہ ہو. اور غلط جواب ہو تو اسے یہ توقع رہتی ہے کہ شاید یہی صحیح ہو, وہ جہالتوں میں بھٹکنے والا جاہل اور اپنی نظر کے دھندلا پن کے ساتھ تاریکیوں میں بھٹکنے والی سواریوں پر سوار ہے . نہ اس نے حقیقت علم کو پرکھا نہ اس کی تہ تک پہنچا . وہ روایات کو اس طرح درہم و برہم کرتا ہے جس طرح ہوا سوکھے ہوئے تنکوں کو . خدا کی قسم! وہ ان مسائل کے حل کرنے کا اہل نہیں جو اسے سے پوچھے جاتے ہیں . اور نہ اس منصب کے قابل ہے جو اسے سپرد کیا گیا ہے جس چیز کو وہ نہیں جانتا اس چیز کو وہ کوئی قابلِ اعتنا علم ہی نہیں قرار دیتا اور جہاں تک وہ پہنچ سکتا ہے . اس کے آگے یہ سمجھتا ہی نہیں کہ کوئی دوسرا پہنچ سکتا ہے اور جو بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی اسے پی جاتا ہے , کیونکہ وہ اپنی جہالت کو خود جانتا ہے . (ناحق بہائے ہوئے ) خون اس کے ناروا فیصلوں کی وجہ سے چیخ رہے ہیں اورغیر مستحق افراد کو پہنچی ہوئی میراثیں چلا رہی ہیں . اللہ ہی سے شکوہ ہے ان لوگوں کا جو جہالت میں جیتے ہیں اور گمراہی میں مرجاتے ہیں . ان میں قرآن سے زیادہ کوئی بے قیمت چیز نہیں جب کہ اسے اس طرح پیش کیا جائے جیسا پیش کرنے کا حق ہے اور اس قرآن سے زیادہ ان میں کوئی مقبول اور قیمتی چیز نہیں . اس وقت جب کہ اس کی آیتوں کا بے محل استعمال کیا جائے . ان کے نزدیک نیکی سے زیادہ کوئی برائی اور برائی سے زیادہ کوئی نیکی نہیں .
No comments:
Post a Comment