Friday 27 August 2010

اقوال ۲۴۱ تا ۲۷۰

اقوال ۲۴۱ تا ۲۷۰
241 مظلوم کے ظالم پر قابو پانے کا دن اس دن سے کہیں زیادہ ہوگا جس میں ظالم مظلوم کے خلاف اپنی طاقت دکھاتا ہے۔
دنیا میں ظلم سہہ لینا آسان ہے. مگر آخرت میں اس کی سزا بھگتنا آسان نہیں ہے۔ کیونکہ ظلم سہنے کا عرصہ زندگی بھر کیوں نہ ہو پھر بھی محدود ہے۔ اور ظلم کی پاداش جہنم ہے، جس کا سب سے زیادہ ہولنا ک پہلو ہے کہ وہا ں زندگی ختم نہ ہو گی کہ موت دوزخ کے عذاب سے بچا لے جائے چنانچہ ایک ظالم اگر کسی کو قتل کر دیتا ہے تو قتل کے ساتھ ظلم کی حد بھی ختم ہوجائے گی، اور اب اس کی گنجائش نہ ہو گی کہ اس پر مزید ظلم کیا جاسکے مگر اس کی سزا یہ ہے کہ اسے ہمیشہ کے لیے دوزخ میں ڈالا جائے کہ جہاں وہ اپنے کئے کی سزا بھگتتا رہے۔

پنداشت ستمگر کہ جفا برما کرد درگرد ن او بماند ر برما بگذشت
242 اللہ سے کچھ تو ڈرو، چاہے وہ کم ہی ہو، اور اپنے اور اللہ کے درمیان کچھ تو پردہ رکھو، چاہے وہ باریک ہی سا ہو۔

243 جب (ایک سوال کے لیے) جوابات کی بہتات ہوجائے توصحیح بات چھپ جایا کرتی ہے۔
اگر کسی سوال کے جواب میں ہر گوشہ سے آوازیں بلند ہونے لگیں۔ تو ہر جواب نئے سوال کا تقاضا بن کر بحث و جدل کا دروازہ کھول دے گا اور جوں جوں جوابات کی کثرت ہوگی، اصل حقیقت کی کھوج اور صحیح جواب کی سراغ رسائی مشکل ہوجائے گی۔ کیونکہ ہر شخص اپنے جواب کو صحیح تسلیم کرانے کے لیے ادھر ادھر سے دلائل فراہم کرنے کی کوشش کرے گا جس سے سارا معاملہ الجھاؤ میں پڑجائے گا۔ اور یہ خواب کثرت تعبیر سے خواب پریشان ہو کر رہ جائے گا۔
244 بے شک اللہ تعالیٰ کے لیے ہر نعمت میں حق ہے تو جو اس حق کو ادا کرتا ہے، اللہ اس کے لیے نعمت کو اوربڑھاتا ہے۔ اور جو کوتاہی کرتا ہے وہ موجودہ نعمت کو بھی خطرہ میں ڈالتا ہے۔

245 جب مقدرت زیادہ ہوجاتی ہے تو خواہش کم ہوجاتی ہے۔

246 نعمتوں کے زائل ہونے سے ڈرتے رہو کیونکہ ہر بے قابو ہوکر نکل جانے والی چیز پلٹا نہیں کرتی۔

247 جذبہ کرم رابطہ قرابت سے زیادہ لطیف و مہر بانی کا سبب ہوتا ہے۔

248 جو تم سے حسن ظن رکھے، اس کے گمان کو سچاثابت کرو۔

249 بہترین عمل وہ ہے جس کے بجالانے پر تمہیں اپنے نفس کو مجبور کرنا پڑے۔

250 میں نے اللہ سبحانہ کو پہچانا ارادوں کے ٹوٹ جانے,نیتوں کے بدل جانے، اور ہمتوں کے پست ہوجانے سے۔
ارادوں کے ٹوٹنے اور ہمتوں کے پست ہونے سے خداوند عالم کی ہستی پر اس طرح استدلال کیا جاسکتا ہے کہ مثلاً ایک کام کے کرنے کا ارادہ ہوتا ہے، مگر وہ ارادہ فعل سے ہمکنار ہونے سے پہلے ہی بدل جاتا ہے اور اس کی جگہ کوئی اور ارادہ پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ ارادوں کا ادلنا بدلنااور ان میں تغیر و انقلاب کا رونما ہونا اس کی دلیل ہے کہ ہمارے ارادوں پر ایک بالا دست قوت کا ر فرما ہے جو انہیں عدم سے وجود اور وجود سے عدم میں لانے کی قوت و طاقت رکھتی ہے، اور یہ امر انسان کے احاطہ اختیا رسے باہر ہے۔ لہٰذ ا اسے اپنے مافوق ایک طاقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ جو ارادوں میں ردو بدل کرتی رہتی ہے۔
251 دنیا کی تلخی آخرت کی خوشگواری ہے اور دنیا کی خوشگواری آخرت کی تلخی ہے۔

252 خداوند عالم نے ایمان کا فریضہ عائد کیا شرک کی آلودگیوں سے پاک کرنے کے لیے۔ اور نماز کو فرض کیا رعونت سے بچانے کے لیے اور زکوۃ کو رزق کے اضافہ کا سبب بنانے کے لیے، اور روزہ کو مخلوق کے اخلاص کو آزمانے کے لیے اور حج کو دین کو تقویت پہنچانے کے لیے، اور جہاد کو اسلام کو سرفرازی بخشنے کے لیے، اور امر بالمعروف کو اصلاحِ خلائق کے لیے اور نہی عن المنکر کو سرپھروں کی روک تھام کے لیے اور حقوقِ قرابت کے ادا کرنے کو (یار و انصار کی) گنتی بڑھانے کے لیے اور قصاص کو خونریزی کے انسداد کے لیے اور حدود شرعیہ کے اجراء کو محرمات کی اہمیت قائم کرنے کے لیے اور شراب خوری کے ترک کو عقل کی حفاظت کے لیے اور چوری سے پرہیز کو پاک بازی کا باعث ہونے کے لیے اور زنا سے بچنے کو نسب کے محفوظ رکھنے کے لیے اور اغلام کے ترک کو نسل بڑھانے کے لیے اور گواہی کو انکارِ حقوق کے مقابلہ میں ثبوت مہیا کرنے کے لیے اور جھوٹ سے علحیدگی کو سچائی کا شرف آشکارا کرنے کے لیے اور قیامِ امن کو خطروں سے تحفظ کے لیے اور امانتوں کی حفاظت کو امت کا نظام درست رکھنے کے لیے اور اطاعت کو امامت کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے

253 آپ(علیہ السلام ) فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی ظالم سے قسم لینا ہو تو اس سے اس طرح حلف اٹھواؤ کہ وہ اللہ کی قوت و توانائی سے بری ہے؟ کیونکہ جب وہ اس طرح جھوئی قسم کھائے گا تو جلد اس کی سزا پائے گا اور جب یوں قسم کھائے کہ قسم اُس اللہ کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں تو جلد اس کی گرفت نہ ہو گی، کیونکہ اُس نے اللہ کو وحدت و یکتائی کے ساتھ یاد کیا ہے۔

254 اے فرزندِ آدم! اپنے مال میں اپنا وصی خود بن اور جو تو چاہتا ہے کہ تیرے بعد تیرے مال میں سے خیر خیرات کی جائے، وہ خود انجام دے دے۔

255 غصہ ایک قسم کی دیوانگی ہے کیونکہ غصہ ور بعد میں پشیمان ضرور ہوتا ہے اور اگر پشیمان نہیں ہوتا تو اُس کی دیوانگی پختہ ہے۔

256 حسد کی کمی بدن کی تندرستی کا سبب ہے۔

257 کمیل ابن زیاد نخعی سے فرمایا: اے کمیل! اپنے عزیز و اقارب کو ہدایت کرو کہ وہ اچھی خصلتوں کو حاصل کرنے کے لیے دن کے وقت نکلیں اور رات کو سو جانے والے کی حاجت روائی کو چل کھڑے ہوں ۔ اُس ذات کی قسم جس کی قوتِ شنوائی تمام آوازوں پر حاوی ہے، جِس کسی نے بھی کسی کے دل کو خوش کیا تو اللہ اُس کے لیے اُس سرور سے ایک لطفِ خاص خلق فرمائے گا کہ جب بھی اُس پر کوئی مصیبت نازل ہو تو وہ نشیب میں بہنے والے پانی کی طرح تیزی سے بڑھے اور اجنبی اونٹوں کو ہنکانے کی طرح اس مصیبت کو ہنکا کر دور کر دے۔

258 جب تنگدست ہو جاؤ تو صدقہ کے ذریعے بچو۔

259 غداروں سے وفا کرنا اللہ کے نزدیک غداری ہے اور غداروں کے ساتھ غداری کرنا اللہ کے نزدیک عین وفا ہے۔

260 کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں نعمتیں دے کر رفتہ رفتہ عذاب کا مستحق بنایا جاتا ہے اور کتنے ہی لوگ ایسے ہیں کہ جو اللہ کی پردہ پوشی سے دھوکا کھائے ہوئے ہیں اوراپنے بارے میں اچھے الفاظ سن کر فریب میں پڑ گئے اور مہلت دینے سے زیادہ اللہ کی جانب سے کوئی بڑی آزمائش نہیں ہے۔
سید رضی کہتے ہیں کہ یہ کلام پہلے بھی گذر چکا ہے مگر یہاں اس میں کچھ عمدہ اور مفید اضافہ ہے۔
261 جب امیرالمومنین علیہ السلام کو یہ اطلاع ملی کہ معاویہ کے ساتھیوں نے (شہر)انبار پر دھاوا کیا تو آپ بنفس نفیس پیادہ پا چل کھڑے ہوئے۔ یہاں تک کہ نخیلہ تک پہنچ گئے، اتنے میں لوگ بھی آپ کے پاس پہنچ گئے اور کہنے لگے یا امیر المومنین علیہ السّلام ! ہم دشمن سے نپٹ لیں گے۔ آ پ کے تشریف لے جانے کی ضرورت نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم اپنے سے تو میرا بچاؤ کر نہیں سکتے دوسروں سے کیا بچاؤ کرو گے۔ مجھ سے پہلے رعایا اپنے حاکموں کے ظلم و جورکی شکایت کیا کرتی تھی مگر میں آج اپنی رعیت کی زیادتیوں کا گلہ کرتا ہوں، گویا کہ میں رعیت ہوں اور وہ حاکم اور میں حلقہ بگوش ہوں اور وہ فرمانروا۔
(سید رضی کہتے ہیں کہ )جب امیرالمومنین علیہ السلام نے ایک طویل کلا م کے ذیل میں کہ جس کا منتخب حصہ ہم خطب میں درج کر چکے ہیں یہ کلمات ارشاد فرمائے توآ پ کے اصحاب میں سے دو شخص اٹھ کھڑے ہوئے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ یا امیر المومنین علیہ السّلام مجھے اپنی ذات اور اپنے بھائی کے علاوہ کسی پر اختیا ر نہیں تو آپ ہمیں حکم دیں ہم اسے بجالائیں گے جس پر حضر ت نے فرمایا کہ میں جو چاہتا ہوں وہ تم دوآدمیوں سے کہاں سرانجا م پاسکتا ہے۔
262 بیان کیا گیا ہے کہ حارث ابن حوط حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ کیا آپ کے خیال میں اس کا گمان بھی ہوسکتا ہے کہ اصحاب جمل گمراہ تھے؟
حضرت نے فرمایا کہ اے حارث !تم نے نیچے کی طرف دیکھا اوپر کی طر ف نگا ہ نہیں ڈالی، جس کے نتیجہ میں تم حیران و سر گردان ہوگئے ہو، تم حق ہی کو نہیں جانتے کہ حق والوں کو جانو اور باطل ہی کو نہیں پہچانتے کہ باطل کی راہ پر چلنے والوں کو پہچانو۔
حارث نے کہا کہ میں سعد ابن مالک اور عبداللہ ابن عمر کے ساتھ گوشہ گزیں ہوجاؤں گا۔
حضرت نے فرمایا کہ !
سعد اور عبداللہ ابن عمر نے حق کی مدد کی، اور نہ باطل کی نصرت سے ہاتھ اٹھایا۔
سعد ابن مالک (سعد ابن ابی وقا ص)اورعبداللہ ابن عمر ان لوگوں میں سے تھے جو امیر المومنین علیہ السّلام کی رفاقت وہمنوائی سے منہ موڑے ہوئے تھے۔ چنانچہ سعد ابن ابی وقاص تو حضر ت عثمان کے قتل کے بعد ایک صحرا کی طرف منتقل ہوگئے اور وہیں زندگی گزار دی، اور حضرت کی بیعت نہ کرنا تھی نہ کی اور عبداللہ ابن عمر نے اگرچہ بیعت کر لی تھی۔ مگر جنگوں میں حضرت کا ساتھ دینے سے انکا ر کردیا تھا اور اپنا عذر یہ پیش کیا تھا کہ میں عبادت کے لیے گوشہ دینی اختیار کرچکاہوں اب حرب و پیکار سے کوئی سروکار رکھنا نہیں چاہتا۔

عذر ہائے ایں چنین نزد خرد بیشکے عذرے است بدتر از گناہ
263 باد شاہ کا ندیم و مصاحب ایسا ہے جیسے شیر پر سوار ہونے والا کہ اس کے مرتبہ پر رشک کیا جاتا ہے وہ اپنے موقف سے خوب واقف ہے۔
مقصد یہ ہے کہ جسے بارگاہ سلطانی میں تقرب حاصل ہوتا ہے لوگ اس کے جاہ و منصب اور عزت و اقبال کو رشک کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں، مگر خود اسے ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں بادشاہ کی نظریں اس سے پھر نہ جائیں، اور وہ ذلت و رسوائی یا موت و تباہی کے گڑھے میں نہ جاپڑے جیسے شیر سوار کہ لوگ اس سے مرعوب ہوتے ہیں اور وہ اس خطرہ میں گھرا ہوتا ہے کہ کہیں شیر اسے پھاڑنہ کھائے یا کسی مہلک گڑھے میں نہ جاگرائے.
264 دوسروں کے پسماندگان سے بھلائی کرو۔ تاکہ تمہارے پسماند گان پر بھی نظرشفقت پڑے۔

265 جب حکماء کا کلا م صحیح ہو تو وہ دوا ہے اور غلط ہوتو سراسر مرض ہے.
علمائے مصلحین کا طبقہ اصلاح کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے، اور فساد کا بھی کیونکہ عوام ان کے زیر اثر ہوتے ہیں اور ان کے قول و عمل کو صحیح و معیار ی سمجھتے ہوئے اس سے استفادہ کرتے اور اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اس صورت میں اگر ان کی تعلیم اصلا ح کی حامل ہوگی تو اس کے نتیجہ میں ہزارو ں افراد صلاح و رشد سے آراستہ ہوجائیں گے اور اگر اس میں خرابی ہوگی تو اس کے نتیجہ میں ہزاروں افراد گمراہی و بے راہروی میں مبتلا ہوجائیں گے.اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جب عالم میں فساد رونما ہوتا ہے تو اس فساد کا اثر ایک دنیا پر پڑتا ہے۔
266 حضرت سے ایک شخص نے سوال کیا کہ ایمان کی تعریف کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ کل میرے پاس آنا تاکہ میں تمہیں اس موقع پربتاؤں کہ دوسرے لوگ بھی سن سکیں کہ اگر تم بھول جاؤتو دوسرے یاد رکھیں۔ اس لیے کلام بھڑکے ہوئے شکار کے مانند ہوتاہے کہ اگر ایک کی گرفت میں آجاتا ہے اور دوسرے کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
(سید رضی کہتے ہیں کہ)حضرت نے اس کے بعد جواب دیا وہ آپ کا یہ ارشا د تھا کہ »الایمان علی اربع شعب «( ایمان کی چار قسمیں ہیں )
267 اے فرزند آدم علیہ السّلام ! اس دن کی فکر کا بارجو ابھی آیا نہیں، آج کے اپنے دن پر نہ ڈال کہ جو آچکا ہے۔ اس لیے کہ اگرایک دن بھی تیری عمر کا باقی ہوگا، تواللہ تیرا رزق تجھ تک پہنچائے گا۔

268 اپنے دوست سے بس ایک حد تک محبت کرو کیونکہ شاید کسی دن وہ تمہارا دشمن ہوجائے اور دشمن کی دشمنی بس ایک حد تک رکھو ہوسکتا ہے کہ کسی دن وہ تمہار ا دوست ہوجائے۔

269 دنیا میں کام کرنے والے دو قسم کے ہیں ایک وہ جو دنیا کے لیے سر گرم عمل رہتا ہے اور اسے دنیا نے آخرت سے روک رکھا ہے۔ وہ اپنے پسماندگا ن کے لیے فقر و فاقہ کا خوف کرتا ہے مگر اپنی تنگدستی سے مطمئن ہے تو وہ دوسروں کے فائدہ ہی میں پوری عمر بسر کردیتاہے اور ایک وہ ہے جو دنیا میں رہ کر اس کے لیے عمل کرتا ہے تو اسے تگ ودو کئے بغیر دنیا بھی حاصل ہوجاتی ہے اور اس طرح وہ دونوں حصوں کو سمیٹ لیتا ہے اور دونوں گھر وں کا مالک بن جاتا ہے وہ اللہ کے نزدیک باوقار ہوتا ہے اور اللہ سے کوئی حاجت نہیں مانگتا جو اللہ پوری نہ کرے۔

270 بیان کیا گیا ہے کہ عمر ابن خطاب کے سامنے خانہ کعبہ کے زیورات اور ان کی کثرت کا ذکر ہوا تو کچھ لوگوں نے ان سے کہا کہ اگرآپ ان زیورات کو لے لیں اور انہیں مسلمانوں کے لشکر پر صرف کرکے ان کی روانگی کا سامان کریں تو زیادہ باعث اجر ہوگا، خانہ کعبہ کو ان زیورات کی کیا ضرورت ہے۔ چنانچہ عمر نے اس کا ارادہ کر لیا اور امیرالمومنین علیہ السلام سے اس کے بار ے میں مسئلہ پوچھا۔
آپ نے فرمایا کہ جب قرآن مجید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا تو اس وقت چار قسم کے اموال تھے، ایک مسلمانوں کا ذاتی مال تھا اسے آپ نے ان کے وارثوں میں ان کے حصہ کے مطابق تقسیم کرنے کا حکم دیا۔ دوسرا مال غنیمت تھا، اسے اس کے مستحقین پر تقسیم کیا۔ تیسرا مال خمس تھا، اس مال کے اللہ تعالیٰ نے خاص مصارف مقرر کردیئے۔ چوتھے زکوٰۃ و صدقات تھے۔ انہیں اللہ نے وہاں صرف کرنے کاحکم دیا جو ان کامصرف ہے۔ یہ خانہ کعبہ کے زیورات اس زمانہ میں بھی موجود تھے لیکن اللہ نے ان کو ان کے حال پر رہنے دیا اور ایسا بھولے سے تو نہیں ہوا، اور نہ ان کا وجود اس پر پوشیدہ تھا۔ لہٰذا آپ بھی انہیں وہیں رہنے دیجئے جہاں اللہ اور اس کے رسول نے انہیں رکھاہے۔ یہ سن کر عمر نے کہا کہ اگر آپ نہ ہوتے تو ہم رسوا ہوجاتے اور زیورات ان کی حالت پر رہنے دیا۔

No comments: