Friday 27 August 2010

اقوال ۲۱۱ تا ۲۴۰

اقوال ۲۱۱ تا ۲۴۰
211 سخاوت عزت آبر و کی پاسبان ہے بُرد باری احمق کے منہ کا تسمہ ہے، درگزر کرنا کامیابی کی زکوٰۃ ہے، جو غداری کرے اسے بھول جانا اس کا بدل ہے۔ مشورہ لینا خود صحیح راستہ پا جانا ہے جو شخص رائے پر اعتماد کرکے بے نیاز ہوجاتا ہے وہ اپنے کو خطرہ میں ڈالتا ہے۔ صبر مصائب و حوادث کا مقابلہ کرتا ہے۔ بیتابی و بیقرار ی زمانہ کے مدد گاروں میں سے ہے۔ بہتر ین دولتمندی آرزوؤں سے ہاتھ اٹھا لینا ہے۔ بہت سی غلام عقلیں امیروں کی ہوا و ہوس کے بارے میں دبی ہوئی ہیں۔ تجربہ و آزمائش کی نگہداشت حسن توفیق کا نتیجہ ہے دوستی و محبت اکتسابی قرابت ہے جو تم سے رنجیدہ و دل تنگ ہو اس پر اطمینا ن و اعتماد نہ کرو۔


212 انسان کی خود پسندی اس کی عقل کے حریفوں میں سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح حاسد محسود کی کسی خوبی و حسن کو نہیں دیکھ سکتا، اسی طرح خود پسندی عقل کے جوہر کا ابھرنا اور اس کے خصائص کا نمایاں ہونا گوارا نہیں کرتی۔ جس سے مغرور خود بین انسان ان عادات و خصائل سے محروم رہتا ہے، جو عقل کے نزدیک پسندیدہ ہوتے ہیں۔ 213 تکلیف سے چشم پوشی کر و۔ ورنہ کبھی خوش نہیں رہ سکتے۔ ہر شخص میں کوئی نہ کوئی خامی ضرور ہوتی ہے۔ اگر انسان دوسروں کی خامیوں اور کمزوریوں سے متاثر ہوکر ان سے علیحدگی اختیار کرتا جائے، تو رفتہ رفتہ وہ اپنے دوستوں کو کھودے گا، اور دنیا میں تنہا اور بے یارو مددگار ہوکر رہ جائے گا، جس سے اس کی زندگی تلخ اور الجھنیں بڑھ جائیں گی۔ ایسے موقع پر انسان کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس معاشرہ میں اسے فرشتے نہیں مل سکتے کہ جن سے اسے کبھی کوئی شکایت پیدا نہ ہو اسے انہی لوگو ں میں رہنا سہنا اور انہی لوگوں میں زندگی گزارنا ہے۔ لہٰذا جہاں تک ہوسکے ان کی کمزوریوں کو نظر انداز کرے اور ان کی ایذا رسانیوں سے چشم پوشی کر تا رہے۔ 214 جس (درخت) کی لکڑی نرم ہو اس کی شاخیں گھنی ہوتی ہیں۔ جو شخص تند خو اور بدمزاج ہو, وہ کبھی اپنے ماحول کو خوش گوار بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اس کے ملنے والے بھی اس کے ہاتھوں، نالاں اور اس سے بیزار رہیں گے اور جو خوش خلق اور شیریں زبان ہولوگ اس کے قرب کے خواہاں اور اس کی دوستی کے خواہشمند ہوں گے اور وقت پڑنے پر اس کے معاون و مددگار ثابت ہوں گے جس سے وہ اپنی زندگی کو کامیاب بنا لے جاسکتا ہے۔ 215 مخالفت صحیح رائے کو برباد کردیتی ہے۔



216 جو منصب پالیتا ہے دست درازی کرنے لگتا ہے۔ 217 حالات کے پلٹوں ہی میں مردوں کے جوہر کھلتے ہیں۔



218 دوست کا حسد کرنا دوستی کی خامی ہے۔ 219 اکثر عقلوں کا ٹھوکر کھا کر گرنا طمع و حرص کی بجلیاں چمکنے پرہوتا ہے۔ جب انسان طمع و حرص میں پڑ جاتا ہے تو رشوت، چوری، خیانت، سود خور ی اور اس قبیل کے دوسرے اخلاقی عیوب اس میں پیدا ہوجاتے ہیں اور عقل ان باطل خواہشوں کی جگمگاہٹ سے اس طرح خیر ہ ہوجاتی ہے کہ اسے ان قبیح افعال کے عواقب و نتائج نظر ہی نہیں آتے کہ وہ اسے روکے ٹوکے اور اس خواب غفلت سے جھنجھوڑے البتہ جب دنیا سے رخت سفر باندھنے پر تیار ہوتاہے اور دیکھتا ہے کہ جو کچھ سمیٹا تھا وہ یہیں کے لیے تھا ساتھ نہیں لے جاسکتا، تو اس وقت آنکھیں کھلتی ہیں۔ 220 یہ انصاف نہیں ہے کہ صرف ظن و گمان پر اعتماد کرتے ہوئے فیصلہ کیا جائے۔





221 آخرت کے لیے بہت برا توشہ ہے بندگا ن خدا پر ظلم و تعدی کرنا۔ 222 بلند انسان کے بہتر ین افعال میں سے یہ ہے کہ وہ ان چیزوں سے چشم پوشی کرے جنہیں وہ نہیں جانتا ہے۔ 223 جس پر حیا نے اپنا لباس پہنا دیا ہے اس کے عیب لوگوں کی نظروں کے سامنے نہیں آسکتے۔ جو شخص حیا کے جو ہر سے آراستہ ہوتا ہے اس کے لیے حیا ایسے امور کے ارتکاب سے مانع ہوتی ہے جو معیوب سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے اس میں عیب ہوتا ہی نہیں کہ دوسرے دیکھیں اور اگر کسی امر قبیح کا اس سے ارتکاب ہو بھی جاتا ہے تو حیا کی وجہ سے علانیہ مرتکب نہین ہوتا کہ لوگوں کی نگاہیں اس کے عیب پر پڑسکیں۔ 224 زیادہ خاموشی رعب و ہیبت کا باعث ہوتی ہے۔ اور انصاف سے دوستوں میں اضافہ ہوتا ہے لطف و کرم سے قدر و منزلت بلند ہوتی ہے جھک کر ملنے سے نعمت تمام ہوتی ہے۔ دوسروں کا بوجھ بٹانے سے لازماً سرداری حاصل ہوتی ہے اور خوش رفتاری سے کینہ ور دشمن مغلوب ہوتا ہے اور سر پھر ے آدمی کے مقابلہ میں بردباری کرنے سے اس کے مقابلہ میں اپنے طرفدار زیادہ ہوجاتے ہیں۔

مقصد یہ ہے کہ صحت کو ایک گرانقدر نعمت سمجھنا چاہیے اور اس کی حفاظت و نگہداشت کی طر ف متوجہ رہنا چاہیے 226 طمع کرنے والا ذلت کی زنجیروں میں گرفتار رہتا ہے۔
225 تعجب ہے کہ حاسد جسمانی تندرستی پر حسد کرنے سے کیوں غافل ہوگئے. حاسد دوسروں کے مال و جاہ پر تو حسد کرتا ہے۔ مگر ان کی صحت و توانائی پر حسد نہیں کرتا حالانکہ یہ نعمت تمام نعمتوں سے زیادہ گرانقدر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ دولت و ثروت کے اثرات ظاہری طمطراق اور آرام و آسائش کے اسباب سے نگاہوں کے سامنے ہوتے ہیں اور صحت ایک عمومی چیز قرار پاکر نا قدری کا شکار ہوجا تی ہے اور اسے اتنا بے قدر سمجھا جاتا ہے کہ حاسد بھی اسے حسد کے قابل نہیں سمجھتے۔ چنانچہ ایک دولت مند کو دیکھتا ہے تو ا س کے مال ودولت پر اسے حسد ہوتا ہے اور ایک مزدور کو دیکھا کہ جو سر پر بوجھ اٹھائے دن بھر چلتا پھرتا ہے تو وہ اس کی نظر وں میں قابل حسد نہیں ہوتا۔ گویا صحت و توانائی اس کے نزدیک حسد کے لائق چیز نہیں ہے کہ اس پر حسد کرے البتہ جب خود بیمار پڑتا ہے تواسے صحت کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے اور اس موقع پر اسے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ قابل حسد یہی صحت ہے جو اب تک اس کی نظرو ں میں کوئی اہمیت نہ رکھتی تھی.



227 آپ سے ایمان کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا کہ ایمان دل سے پہچاننا، زبان سے اقرار کرنا اور اعضا سے عمل کرنا ہے. 228 جو دنیا کے لیے اندوہناک ہو وہ قضا و قدر الہی سے ناراض ہے اور جو اس مصیبت پر کہ جس میں مبتلا ہے شکوہ کرے تو وہ اپنے پروردگار کا شاکی ہے اور جو کسی دولت مند کے پاس پہنچ کر اس کی دولتمندی کی وجہ سے جھکے تو اس کا دو تہائی دین جاتا رہتا ہے اور جو شخص قرآن کی تلاوت کرے پھر مر کر دوزخ میں داخل ہو تو ایسے ہی لوگوں میں سے ہوگا، جو اللہ کی آیتوں کا مذاق اڑاتے تھے اور جس کا دل دنیا کی محبت میں وارفتہ ہوجائے تو اس کے دل میں دنیا کی یہ تین چیزیں پیوست ہوجاتی ہیں۔ ایسا غم کہ جو اس سے جدا نہیں ہوتا اور ایسی حرص کہ جو اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی اور ایسی امید کہ جو بر نہیں آتی۔


ہر قانع شد بخشک و تر شہ بحر و برداشت 230 جس کی طرف فراخِ روزی کئے ہوئے ہو اس کے ساتھ شرکت کرو، کیونکہ اس میں دولت حاصل کرنے کا زیادہ امکان اور خوش نصیبی کا زیادہ قرینہ ہے۔


229 قناعت سے بڑھ کر کوئی سلطنت اور خو ش خلقی سے بڑھ کر کوئی عیش و آرام نہیں ہے۔ حضرت سے اس آیت کے متعلق دریافت کیاگیا کہ »ہم اس کو پاک و پاکیزہ زندگی دیں گے «؟ آپ نے فرمایا کہ وہ قناعت ہے۔ حسن خلق کو نعمت سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح نعمت باعث لذت ہوتی ہے اسی طرح انسان خوش اخلاقی و نرمی سے دوسروں کے دلوں کو اپنی مٹھی میں لے کر اپنے ماحول کو خوش گوار بناسکتا ہے۔ اور اپنے لیے لذت و راحت کا سامان کر نے میں کامیاب ہوسکتا ہے اور قناعت کو سرمایہ و جاگیر اس لیے قرار دیا ہے کہ جس طرح ملک و جاگیر احتیاج کو ختم کردیتی ہے اسی طرح جب انسان قناعت اختیار کرلیتا ہے اور اپنے رزق پر خوش رہتا ہے تو وہ خلق سے مستغنی اور احتیاج سے دور ہوتا ہے۔ 231خدا وند عالم کے ارشاد کے مطابق کہ اللہ تمہیں عدل و احسان کا حکم دیتا ہے۔ فرمایا ! عدل انصاف ہے اور احسان لطف و کرم۔

کسی کو مقابلہ کے لیے خود نہ للکارو۔ ہاں اگر دوسرا للکارے تو فورا ًجواب دو۔ اس لیے کہ جنگ کی خود سے دعوت دینے والا زیادتی کرنے والا ہے، اور زیادتی کرنے والا تباہ ہوتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اگر دشمن آمادہ پیکار ہو اور جنگ میں پہل کرے تو اس موقع پر اس کی روک تھا م کے لیے قد م اٹھا نا چاہیے اور از خود حملہ نہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ سرا سر ظلم و تعدی ہے اور جو ظلم وتعدی کا مرتکب ہوگا، وہ اس کی پاداش میں خاک مذلت پر پچھاڑ دیا جائے گا۔ چنانچہ امیرالمومنین علیہ السّلام ہمیشہ دشمن کے للکارنے پر میدان میں آتے اور خود سے دعوت مقابلہ نہ دیتے تھے۔ چنانچہ ابن الحدید تحریر کرتے ہیں۔

ہمارے سننے میں نہیں آیاکہ حضرت نے کبھی کسی کو مقابلہ کے لیے للکا ر ا ہو بلکہ جب مخصوص طور پر آپ کو دعوت مقابلہ دی جاتی تھی یا عمومی طور پر دشمن للکارتا تھا، تو اس کے مقابلہ میں نکلتے تھے اور سے قتل کردیتے تھے۔ (شرح ابن ابی الحدید، جلد 4، صفحہ 344) 234 عورتوں کی بہتر ین خصلتیں وہ ہیں جو مردوں کی بدترین صفتیں ہیں۔ غرور، بزدلی اور کنجوسی اس لیے کہ عورت جب مغرور ہوگی، تو وہ کسی کو اپنے نفس پر قابو نہ دے گی اور کنجوس ہوگی تو اپنے اور شوہر کے مال کی حفاظت کرے گی اور بزدل ہوگی تو وہ ہر اس چیز سے ڈرے گی جو پیش آئے گی۔
232 جو عاجز و قاصر ہاتھ سے دیتا ہے اسے بااقتدار ہاتھ سے ملتا ہے۔ سید رضی کہتے ہیں کہ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے مال میں سے کچھ خیر و نیکی کی راہ میں خر چ کرتا ہے اگرچہ وہ کم ہو، مگر خداوند عالم اس کا اجر بہت زیادہ قراردیتا ہے اور اس مقام پر دو ہاتھوں سے مراد دو نعمتیں ہیں اور امیرالمومنین علیہ السلام نے بندہ کی نعمت اور پروردگار کی نعمت میں فرق بتایا ہے کہ وہ تو عجز و قصور کی حامل ہے اور و ہ بااقتدار ہے۔ کیونکہ اللہ کی عطاکردہ نعمتیں مخلوق کی دی ہوئی نعمتوں سے ہمیشہ بدر جہا بڑھی چڑھی ہوتی ہیں۔ اس لیے کہ اللہ ہی کی نعمتیں تمام نعمتوں کا سر چشمہ ہیں۔ لہٰذا ہر نعمت انہی نعمتوں کی طرف پلٹتی ہے، اور انہی سے وجود پاتی ہے۔ 233 اپنے فرزند امام حسن علیہ السّلام سے فرمایا :

235 آپ علیہ السّلام سے عرض کیاگیا کہ عقلمند کے اوصاف بیان کیجئے۔ فرمایا! عقلمند وہ ہے جو ہر چیز کو اس کے موقع و محل پر رکھے۔ پھر آپ سے کہا گیا کہ جاہل کا وصف بتایئے تو فرمایا میں بیان کر چکا۔ سید رضی فرماتے ہیں کہ مقصد یہ ہے کہ جاہل وہ ہے جو کسی چیز کو اس کے موقع و محل پر نہ رکھے۔ گویا حضرت کا اسے نہ بیان کر نا ہی بیان کرنا ہے۔ کیونکہ اس کے اوصاف عقلمند کے اوصاف کے برعکس ہیں۔ 236 خد ا کی قسم تمہاری یہ دنیا میرے نزدیک سور کی انتڑیوں سے بھی زیادہ ذلیل ہے جو کسی کوڑھی کے ہاتھ میں ہوں۔

237 ایک جماعت نے اللہ کی عبادت ثواب کی رغبت و خواہش کے پیشِ نظر کی، یہ سودا کرنے والوں کی عبادت ہے اور ایک جماعت نے خوف کی وجہ سے اس کی عبادت کی، اور یہ غلاموں کی عبادت ہے او ر ایک جماعت نے ازروئے شکر و سپاس گزاری اس کی عبادت کی، یہ آزادوں کی عبادت ہے۔

238 عورت سراپا برائی ہے اور سب سے بڑی برائی اس میں یہ ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں۔

239 جو شخص سستی و کاہلی کرتاہے وہ اپنے حقوق کو ضائع وبرباد کردیتا ہے اور جو چغل خور کی بات پر اعتماد کر تا ہے، وہ دوست کو اپنے ہاتھ سے کھو دیتا ہے.
240 گھر میں ایک غصبی پتھر اس کی ضمانت ہے کہ وہ تباہ و بربا د ہوکر رہے گا۔ سید رضی فرماتے ہیں کہ ایک روایت میں یہ کلام رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہوا ہے اور اس میں تعجب ہی کیا ہے کہ دونوں کے کلام ایک دوسرے کے مثل ہوں کیونکہ دونوں کا سر چشمہ تو ایک ہی ہے.

No comments: