Tuesday 10 August 2010

نھج البلا غہ کتاب حق و حقیقت


اگرجس دن ھم نے نھج البلاغہ کا ادراک کر لیا اور تمام تعصبات و جانبداریوں سے مبرا ھوتے ھوئے اسکی کنہ حقیقت تک پھنچ گئے، اس دن ھم تمام سماجی، اخلاقی، معاشی اور فلسفیانہ مکاتب فکر سے بے نیاز ھوجائیں گے۔
حقیقت تو یہ ھے کہ ان چند جملو ں کے ذریعہ نھج البلا غہ کی شناخت حاصل نھیں کی جا سکتی کیو نکہ اگر ارباب علم وفلسفہ ، گذشتہ تا ریخی حقائق کے سلسلے میں نھج البلاغہ سے استفادہ کرلیں تب بھی ان کیلئے مستقبل تو مجھول ھی ھے جبکہ نھج البلاغہ فقط ماضی وحال ھی سے مربو ط نھیں ھے بلکہ یہ ایک ایسی کتاب ھے جو آئندہ سے بھی مر بوط ھے کیو نکہ نھج البلاغہ میں انسان و کا ئنات کے بارے میں جاودانہ طور پر مبسوط بحث کی گئی ھے۔ بشر وکا ئنات کے حوا لے سے جن اصول وقو انین کا تذکرہ کیا گیا ھے وہ کسی ایک زبان ومکان کو پیش نظر رکہ کرو ضع نھیں کئے گئے ھیں کہ کسی ایک محدود زمانے میں مقید ھو کر رہ جا ئیں ۔ زمانے تبدیل ھو تے رھتے ھیں اورھر زمانے کے افراد اپنے فھم وا دراک کے مطا بق اس آفاقی کتاب سے استفادہ وبھرہ بر داری کرتے رھتے ھیں ۔
ایسی کونسی کتاب ھے جس میں نھج البلا غہ کی طرح حیات ور موز حیات کے متعلق اسقدر عمیق اور جامع بحث کی گئی ھو اور زندگی کے دونو ں پھلوؤ ں اور اسکی حقیقت کو با لتفصیل وا ضح کیا گیا ھو ؟
آیا ممکن ھے کہ نھج البلا غہ کے علاوہ کسی اور کتاب میں مفھو م اوررموز موت وحیات تک دسترسی پیدا کی جا سکے ؟
کیا ممکن ھے کہ بشر کے محدود ذھن کے ذریعہ سا ختہ شدہ ، ناقص مکاتب فکر سے اقتصادیات کے ان تمام نکات اور پھلوؤں کا استخراج کرلیا جا ئے جو نھج البلاغہ میں مو جو د ھیں ؟
ھر اقتصادی مکتب فکر جھاں کچہ امتیازات و محاسن کا حا مل ھوتا ھے و ھیں اسمیں کچہ نقائص بھی پا ئے جا تے ھیں۔
ایک مکتب فکر انسا ن کو اقتصادیات پر قربان کر دیتا ھے
جبکہ دوسر ے مکتب کی نگا ہ میں انسان کیلئے معا شیات کی کوئی حیثیت نھیں ھے ،
تیسرا مکتب ، بشر کو اس حدتک آزادی کا اختیار دے دیتا ھے کہ معاشرے کی تمام اھمیت وارزش ھی ختم ھو کر رہ جاتی ھے ،
چو تھا مکتب آتا ھے اور اسکی ساری توجھات معاشرے پر مر کوزھو جاتی ھیں
لیکن نھج البلاغہ نے اسلام کی معتدل روش کا اتباع کرتے ھوئے سماج کے ھر طبقے کے حقوق کی محا فظت کی ھے اس طرح کہ فرد ومعا شرہ،دونو ں کا یکسا ں خیال رکھا ھے یعنی فردی آزادی اور اختیار ات فقط اس حد تک قا بل قبو ل ھیں جھا ں تک سماجی زندگی میں خلل پیدا نہ ھو،ورنہ معا شرتی زندگی مذکورہ صورت میں بھر حال برتری کی حامل ھے یعنی سماجی زندگی ، فردی زندگی پر فو قیت رکھتی ھے ۔
نھج البلاغہ نے زندگی کے معاشی شعبے میں اسلام کے اصول وقوا نین اس قدر واضح طور پر بیان کئے ھیںکہ خودبخو د ھر حقدار تک اسکا حق پھنچ جاتا ھے ۔سماجی نظام حیات کو اس طرح مرتب کیا ھے کہ معا شرے کے تمام افراد ایک انسانی بدن کے اعضاء کی مانند نظر آتے ھیں ۔ اگر پیر میں تکلیف ھو تی ھے تو آنکہ بھی اس درد کا احساس کرتی ھے لیکن جو کام آنکہ کر سکتی ھے، ایک پیر نھیں کر سکتا اور پیر سے ایسی تو قع رکھی بھی نھیں جا سکتی لھذا اسی وجہ سے معا شرہ کو فردی زندگی پر مقدم رکھا گیاھے ۔
اسلامی نقطئہ نظر سے کسی شخصیت کا معیار فقط وفقط تقویٰ ھے ۔ اسلامی معا شرے میں وھی شخص مقام و مرتبہ کا حامل ھے جو اپنی ذمہ داریوں اور وظائف کو خاطر خواہ طور پر انجام دیتا ھے ۔
اسی طرح نھج البلاغہ میں ذکر شدہ حکومت و سیاست سے متعلق امور و اصول معاشرے میں ممکنہ طور پر موجو د مسائل کا راہ حل بھی پیش کر تے ھیں ۔ نھج البلاغہ میں حضرت علی (ع) کے ذریعے ما لک اشترکے لئے صادر شدہ فر مان میں ھر اس قانون کامشاھدہ کیا جاسکتا ھے جوحکومت وعوام کے رابطے کے متعلق ایک انسانی ذھن وضع کر سکتا ھے خواہ یہ قانون کسی ایک ملک و مملکت سے متعلق ھو یا عالمی برادری کو مد نظر رکھتے ھو ئے بنا یا گیا ھو ۔ ساتھ ھی ساتھ حضرت علی (ع) کے اس فرمان کا خاصہ یہ بھی ھے کہ اس فرمان میں موجودہ نکات اور پھلوؤں تک ایک عام انسان کا ذھن پھنچ بھی نھیں سکتا ۔
نھج البلاغہ کا طرئہ امتیاز یہ ھے کہ اس نے مختلف النوع مضامین ومطالب کو اتنے جاذب اسلوب میں بیان کیا ھے کہ گویا یہ کتا ب ایک مسلسل مضمون پر مشتمل ھے۔ جھاں ماوراء الطبیعت مسائل کا تذکرہ کیاگیا ھے ،قطعاًً ایسا محسوس نھیں ھوتا کہ عقل وقلب ان مسائل کے ادراک میں ایک دوسرے کی مخالف جھت میں جارھے ھوں جبکہ فلسفہ کی کتابو ں میں جب ایک فلسفی کسی مسئلے کی تحلیل کرتا ھے تو فقط عقلی نقطھٴنظر کو مد نظر رکھتے ھوئے ۔ ایک فلسفی کے لئے ممکن ھی نھیں ھے کہ ایک ھی مسئلے کی تحلیل عقل وقلب دونوںاعتبار سے کر سکے ۔ یھی وجہ ھے کہ عقل فطر ی اور عقل عملی (1صطلاحاً جسے ادراک قلبی ووجدانی بھی کھا جاتا ھے ) کو ایک دوسرے سے جدا رکھا جاتا ھے کیونکہ رو ح انسانی میںان دونو ں حقیقتو ں کی روش مختلف ھے ۔
نھج البلاغہ کی ایک خا صیت یہ بھی بیان کی گئی ھے کہ جس حد تک انسان وکا ئنا ت کے متعلق حقائق و وا قعات اس کتاب میں ذکر کر دئے گئے ھیں، ان سے بالا تر حقا ئق کا تصو ر بھی نھیں کیا جا سکتا ۔ مثال کے طور پر جھاں زھد وتقویٰ سے متعلق گفتگوکی گئی ھے وھاں ایسا معلوم ھوتاھے کہ یہ جملے اس شخص کی زبان سے جاری ھو رھے ھیں جسکی ساری زندگی صرف اور صرف زھد وپارسا ئی کے درمیان ھی گزری ھے ۔
اسی طرح جن مقا مات پر جنگ اور مقدمات جنگ کے حوالے سے گفتگو کی گئی ھے وھا ں ایسا محسوس ھوتا ھے کہ یہ جملے اس شخص کی زبان سے جاری ھو رھے ھیں جسکی ولادت میدان جنگ میں ھو ئی ھے اور نہ فقط ولا دت بلکہ اس نے جنگ کے دوران ھی اس دنیا سے کوچ کیا ھے ۔
جھا ں حضرت علی (ع) نے دنیا کی بے ثبا تی اور متضا د صفات کا تذکرہ کیا ھے وھا ں محسوس ھو تا ھے کہ گو یا علی (ع) نے دنیا کی خلقت کے او لین مر حلے ھی سے بشر یت کے ساتھ زندگی گزاری ھے اور دنیا کے خاتمے تک تمام حوادث کا بذات خود مشا ھدہ کیا ھے
مالک اشتر کو حکو مت وسیاست کے اصول تعلیم فر ماتے ھیں تو ایک عام انسانی ذھن خیال کرتاھے کہ روز اول ھی سے امام (ع)نے اپنی زندگی انھیں امور کو انجا م دینے میں گزاری ھے ۔
آج جب کہ چا رو ں طرف زمانہ میں تمدن وتھذیب کا دور دورا یے ،نھج البلا غہ میں مذکورہ دستورات کے تحت معا شرے کو مکمل طور پر مھذب و متمدن بنا یا جاسکتا ھے ۔
جھا ں لطیف تشبیھات وکنایات کا ذکر فرمایا ھے وھاں محسوس ھوتا ھے گویا آپ کی تمام عمر ادب وفنون لطیفہ کے درمیان گزری ھے ۔تو حید کے ارفع وا علی مبا حث کے متعلق خطبہ ارشاد فرماتے ھیں تو تمام فلسفی گنگ ھو کر رہ جاتے ھیں ۔
مختصراً یہ کہ جس طرح حضرت علی(ع) کی شخصیت ایسی مختلف اور متضادصفا ت کی حامل ھے کہ کسی ایک فرد میں اسکا اجتما ع ممکن نھیں ھے اسی طرح نھج البلاغہ بھی مختلف ومتضا د فردی واجتما عی مسائل وامور کا سمندر اپنے اندر سموئے ھوئے ھے ۔
نھج البلاغہ سے متعلق ایک غورطلب نکتہ یہ بھی ھے کہ بعض سادہ لوح حقیقت سے بے خبریا با خبر لیکن خودغرض افراد یہ سمجھتے ھیں کہ نھج البلاغہ سید رضی (رح) کی تخلیق ھے۔ ھاں! اتنا ضرور ھے کہ حضرت علی (ع) کی زبان سے جاری شدہ بعض الفاظ یا جملے بھی اس میں شامل ھیں ۔اس طرح کے بے بنیا د دعوے ابن خلکان سے شروع ھو ئے اور دوسرے افراد نے اسکی پیر وی کی ھے۔
اولاًسید رضی (رح)کے ذریعے تخلیق کردہ علم وحکمت اور ادب پارے ھما ری دسترس میں ھیں۔ ان کا شعر ی دیو ان بھی کافی مشھور ومعروف ھے ۔ اگر سید رضی(رح) کو درجھٴاول کے شعراء اور ادباء میں فرض بھی کرلیا جائے تو سید رضی (رح)ماھر اقتصادیات و سماجیات یا حکیم وغیرہ نھیں ھیںیعنی حضرت علی(ع)کے سماجی زندگی اور حکمت سے متعلق عام خطبات تک بھی سید رضی (رح)کے ذھن کی رسائی نھیں ھے ۔
ثا نیاً مو جو دہ نھج البلا غہ میں مو جو د آنحضرت(ع) کے خطب ومکتو بات، سےرضی(رح) کی ولا دت سے پھلے ھی سے دوسری کتا بو ں میں بیا ن کئے گئے ھیں ۔ ایسا قطعاًً نھیں ھے کہ نھج البلا غہ سید رضی (رح)کی تخلیق ھے بلکہ فقط تعصب، خود غر ضی اور جھا لت اس بے بنیاد دعوے کا سبب ھیں۔
ثالثاًکون ھے جس نے حضرت علی(ع) کے زمانے سے لیکر سید رضی بلکہ آج تک اس بلند و بالا فصا حت وبلا غت اور مختلف حقائق ومسائل کواس قدر سلیس انداز سے ایک ھی اسلوب میں بیان کیا ھو ؟
ما قبل و ما بعد اسلام عرب میں مو جو د اکثر خطب و مکتو بات تاریخ میں موجو د ھیں اور سینکڑ وں کتابیں اس مو ضو ع پر لکھی گئی ھیں لیکن ایسی ایک کتا ب بھی مشا ھدے میں نھیں آسکی ھے کہ جسکا اسلو ب اور انداز بیان نھج البلا غہ کے درجے تک پھنچ سکے ۔
کس قدر مضحکہ خیز ھے کہ نھج البلا غہ کے مشھورومعروف خطبے” ان الد نیا دار مجا ز والاخر ة دار قرار “کو معاویہ بن ابوسفیان سے منسوب کیا گیا ھے ۔ ”بیان اور تبیین “ میں جاحظ کے بقو ل معا ویہ کے پاس دنیا پر ستی اور حکو مت پرستی کی وجہ سے اتنی فر صت ھی کھاں تھی کہ ان بلند وبالا مضامین ومطا لب میں اپنا سرکھپا سکتا ۔
اگر ” بیان اور تبیین “ کا مطا لعہ کیا جائے (سید رضی (رح)نے بھی عین عبارت کو نقل کیا ھے ) تو خود بخود وا ضح ھو جائیگا کہ معاویہ جیسے شخص کیلئے محال ھے کہ ان عالی مضامین کے حامل خطبے کو اپنی زبان سے جاری کرسکے ۔
رابعاً سید رضی (رح) جیسی بلند شخصیت سے بعید ھے کہ کسی شخص کے کلام کو کسی دوسرے شخص سے منسوب کرے ۔ بعض مخا لفین اپنے تقلیدی عقائد اور اعتقا دات کو ثابت کر نے کیلئے نہ فقط یہ کہ سید رضی (رح) جیسے عادل شخص کو فا سق اور دروغ گوٹھر اتے ھیں بلکہ حضرت علی (ع) کے والد بزرگوار جناب ابوطالب(ع) اور جناب ابوذر تک کو بھی کفار کی فھرست میں شامل کر دیتے ھیں ۔ ایسے افراد کیلئے سید رضی(رح) کو دروغ گو قرار دینا قطعاً اھمیت نھیں رکھتا کیونکہ تا ریخ میں بعض حضرات کے نزدیک کسی کو درو غ گو ثابت کر دینا بھی ایک فن ھے ۔
خا مساً اگر نھج البلاغہ وا قعی سید رضی(رح) کی تخلیق اور ذھنی کاوشوں کا نتیجہ ھے تو پھر کیوں سیدرضی(رح)نے اسقدر ان کلمات وجملا ت کو ازحداھمیت دی ھے ۔ مثلاًایک خطبے کو نقل کر نے کے بعد سید رضی(رح) تحریر فر ماتے ھیں :” یہ خطبہ گز شتہ صفحات میں بھی نقل کیا جا چکا ھے لیکن روایات کے اختلاف کی بنا پر یھاں اسکو دوبارہ نقل کیا گیا ھے ۔“ یا ” مذکورہ جملے، گز شتہ خطبے میں دوسرے انداز سے نقل کئے گئے تھے لیکن اختلاف کی وجہ سے یھاں دوبارہ نقل کیا جارھا ھے ۔“
نھج البلاغہ کو حضرت علی (ع) سے منسو ب نہ کر نے کی دواھم وجوھات بیان کی گئی ھیں :
(1) ۔ طر فداران حضرت علی (ع) آپ کی برتری ثابت کرنے کیلئے نھج البلاغہ کو بطور مثا ل پیش کرتے ھیں اورنتیجتاً کھتے ھیں :” اگر دوسرے افراد بھی حضرت علی (ع) ھی کی طرح بلند مقامات و مناصب کے حامل تھے تو نھج البلا غہ کا کم ازکم ایک تھائی یا چو تھا ئی حصہ ھی ان سے نقل کیا گیا ھو تا ۔ دوسرے الفاظ میں علی (ع) کے پا س نھج البلاغہ جیسا شاھکار ھے، دوسرو ں کے پاس کیا ھے ؟“
(2) ۔ حضرت علی (ع) نے نھج البلاغہ میں اکثر مقا مات پر گز شتہ افراد کے متعلق اپنی ناراضگی اور عدم رضایت وا ضح طورپربیان کی ھے اور یھیں سے واضح ھو جاتا ھے کہ حضرت(ع) کے بارے میںرسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فر ما ئشا ت کو ز مانے نے فرا موش کر دیا تھا ۔
نھج البلاغہ حضرت علی(ع)سے صادر ھوئی ھے اس کے لئے عمدہ تر ین اور بھتر ین دلیل یھی ھے کہ تاحال نھیں سناگیا ھے بلکہ غیر ممکن ھے کہ کوئی دعوی کرے کہ نھج البلاغہ کا کوئی بھی خطبہ یا مکتوب امیرالمو منین (ع) سے صادر نھیں ھواھے کیو نکہ تمام شیعہ وسنی محدثین ومورخین اس پر متفق ھیں کہ نھج البلاغہ کا کم از کم کچہ حصہ تو حتمی اور یقینی طور پر حضرت علی (ع) سے صا در ھواھے اور اگر کو ئی شخص محد ثین و مور خین کے اس اتفاق کی تصدیق کردے ( اس بات سے انکار فقط اسی صورت میں کیا جاسکتا ھے جب اسلامی اصول وا حا دیث کو طا ق پر اٹھا کر رکہ دیاجا ئے ) تو اسکو لا محا لہ یہ اقرار کر نا پڑے گا کہ نھج البلاغہ از اول تا آخر حضرت علی (ع) سے صا در ھو ئی ھے کیو نکہ عربی ادبیا ت سے ذرہ برابرآشنائی اورواقفیت رکھنے والا شخص بغیر کسی شک وتر دید کے کھہ دیگا کہ نھج البلاغہ فقط ایک اسلوب اورسبک پرمحیط ھے اور ایک ھی شخص سے صا در ھو ئی ھے۔
اگر خور شید کو بھی اپنی نورافشا نی کی تصدیق کیلئے دوسرے خود غرض افراد کی ضرورت ھوتی تونہ جانے کب کا اس کا ئنات کو الوداع کھہ چکا ھوتا اور کسی مجھو ل ومبھم گوشے میں پوشیدہ ھوکررہ گیاھوتا ۔

No comments: