Friday 27 August 2010

اقوال ۳۳۱ تا ۳۶۰

اقوال ۳۳۱ تا ۳۶۰
331 جب کاہل اور ناکارہ افراد عمل میں کوتاہی کرتے ہیں تو اللہ کی طرف سے یہ عقلمند وں کے لیے ادائے فرض کا ایک بہترین موقع ہوتا ہے۔

332 حکام اللہ کی سر زمین میں اس کے پاسبان ہیں۔

333 مومن کے متعلق فرمایا! مومن کے چہرے پر بشاشت اور دل میں غم و اندوہ ہوتا ہے۔ ہمت اس کی بلند ہے اور اپنے دل میں وہ اپنے کو ذلیل سمجھتا ہے سر بلندی کو برا سمجھتا ہے اور شہرت سے نفرت کرتا ہے اس کا غم بے پایاں اور ہمت بلند ہوتی ہے۔ بہت خاموش ہمہ وقت مشغو ل، شاکر، صابر، فکر میں غرق, دست طلب بڑھانے میں بخیل، خوش خلق اور نرم طبیعت ہوتا ہے اور اس کا نفس پتھر سے زیادہ سخت اور خود غلام سے زیادہ متواضع ہوتا ہے۔

334 اگر کوئی بندہ مدت حیات اور اس کے انجا م کو دیکھے تو امیدوں اور ان کے فریب سے نفرت کرنے لگے۔

335 ہر شخص کے مال میں دو حصہ دار ہوتے ہیں۔ ایک وارث اور دوسرے حوادث.

336 جس سے مانگا جائے وہ اس وقت تک آزاد ہے، جب تک وعدہ نہ کرے۔

337 جو عمل نہیں کرتا اور دعا مانگتا ہے وہ ایسا ہے جیسے بغیر حلیہ کمان کے تیر چلانے والا.

338 علم دو طرح کا ہوتا ہے، ایک وہ جو نفس میں بس جائے اور ایک وہ جو صرف سن لیا گیاہو اور سناسنایا فائدہ نہیں دیتا جب تک وہ دل میں راسخ نہ ہو۔

339 اصابتِ رائے اقبال و دولت سے وابستہ ہے اگر یہ ہے تو وہ بھی ہوتی ہے اور اگر یہ نہیں تو وہ بھی نہیں ہوتی.
جب کسی کا بخت یاور اور اقبال اوج و عروج پر ہوتا ہے تو اس کے قدم خود بخود منزل مقصود کی طر ف بڑھنے لگتے ہیں۔ اور ذہن و فکر کو صحیح طریق کار کے طے کرنے میں کوئی الجھن نہیں ہوتی اور جس کا اقبال ختم ہونے پر آتا ہے وہ روشنی میں بھی ٹھوکریں کھاتا ہے اور ذہن وفکر کی قوتیں معطل ہوکر رہ جاتی ہیں۔ چنانچہ جب بنی برمک کا زوال شروع ہوا تو ان میں سے دس آدمی ایک امر میں مشورہ کرنے کے لیے جمع ہوگئے مگر پوری رد و کد کے بعد بھی کسی صحیح نتیجہ تک نہ پہنچ سکے۔ یہ دیکھ کر یحییٰ نے کہا کہ خدا کی قسم یہ ہمارے زوال کا پیش خیمہ اور ہمارے ادبار کی علامت ہے کہ ہم دس آدمی بھی کوئی فیصلہ نہ کر سکیں۔ ورنہ جب ہمارا نیر و اقبال بام عروج پر تھا تو ہمارا ایک آدمی ایسی دس دس گتھیوں کو بڑی آسانی سے سلجھا لیتا تھا۔
340 فقر کی زینت پاکدامنی اور تونگری کی زینت شکر ہے۔

341 ظالم کے لیے انصاف کا دن اس سے زیادہ سخت ہوگا، جتنا مظلوم پر ظلم کا دن۔

342 سب سے بڑی دولت مندی یہ ہے کہ دوسروں کے ہاتھ میں جو ہے اس کی آس نہ رکھی جائے۔

343 گفتگوئیں محفوظ ہیں اور دلوں کے بھید جانچے جانے والے ہیں۔ ہر شخص اپنے اعمال کے ہاتھوں میں گروی ہے اور لوگوں کے جسموں میں نقص اور عقلوں میں فتور آنے والا ہے مگر وہ کہ جسے اللہ بچائے رکھے۔ ان میں پوچھنے والا الجھانا چاہتا ہے اور جواب دینے والا (بے جانے بوجھے جواب کی)زحمت اٹھاتا ہے جو ان میں درست رائے رکھتا ہے۔ اکثر خوشنودی و ناراضگی کے تصورات اسے صحیح رائے سے موڑ دیتے ہیں اور جو ان میں عقل کے لحاظ سے پختہ ہوتا ہے بہت ممکن ہے کہ ایک نگا ہ اس کے دل پر اثر کردے اور ایک کلمہ اس میں انقلاب پیدا کردے۔

344 اے گروہ مردم! اللہ سے ڈرتے رہو کیونکہ کتنے ہی ایسی باتوں کی امید باندھنے والے ہیں جن تک پہنچتے نہیں اور ایسے گھر تعمیر کرنے والے ہیں جن میں رہنا نصیب نہیں ہوتا اور ایسا مال جمع کرنے والے ہیں جسے چھوڑجاتے ہیں حالانکہ ہوسکتا ہے کہ اسے غلط طریقہ سے جمع کیا ہو یا کسی کا حق دبا کر حاصل کیا ہو۔ اس طرح اسے بطور حرام پایا ہو اور اس کی وجہ سے گناہ کا بوجھ اٹھایا ہو، تو اس کا وبال لے کر پلٹے اور اپنے پروردگار کے حضور رنج و افسوس کرتے ہوئے جا پہنچے دنیا و آخرت دونوں میں گھاٹا اٹھایا۔ یہی تو کھلم کھلا گھاٹا ہے۔

345 گناہ تک رسائی کا نہ ہوتا بھی ایک صورت پاکدامنی کی ہے۔

346 تمہاری آبرو قائم ہے جسے دست سوال دراز کرنا بہا دیتا ہے۔ لہٰذا یہ خیال رہے کہ کس کے آگے اپنی آبرو ریزی کر رہے ہو۔

347 کسی کو اس کے حق سے زیادہ سراہنا چاپلوسی ہے اور حق میں کمی کرنا کوتاہ بیانی ہے یا حسد.

348 سب سے بھاری گناہ وہ ہے کہ جس کا ارتکاب کرنے والا اسے سبک سمجھے۔
چھوٹے گناہوں میں بے باکی و بے اعتنائی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان گناہ کے معاملہ میں بے پرواہ سا ہوجاتا ہے اور رفتہ رفتہ یہ عادات اسے بڑے بڑے گناہوں کی جرات دلا دیتی ہے اور پھر وہ بغیر کسی جھجک کے ان کا مرتکب ہونے لگتا ہے۔ لہٰذا چھوٹے گناہوں کو بڑے گناہوں کا پیش خیمہ سمجھتے ہوئے ان سے احتراز کر نا چاہیے تاکہ بڑے گناہوں کے مرتکب ہونے کی نوبت ہی نہ آئے۔
349 جو شخص اپنے عیوب پر نظر رکھے گا وہ دوسروں کی عیب جوئی سے باز رہے گا۔ اور جو اللہ کے دیئے ہوئے رزق پر خوش رہے گا، وہ نہ ملنے والی چیز پر رنجیدہ نہیں ہو گا۔ جو ظلم کی تلوار کھینچتا ہے وہ اسی سے قتل ہوتا ہے جو اہم امور کو زبردستی انجام دینا چاہتا ہے۔ وہ تباہ و بر باد ہوتا ہے، جو اٹھتی ہوئی موجوں میں پھاندتا ہے، وہ ڈوبتا ہے، جو بدنامی کی جگہوں پر جائے گا، وہ بدنام ہوگا، جو زیادہ بولے گا، وہ زیادہ لغزشیں کرے گا اور جس میں حیا کم ہو اس میں تقویٰ کم ہوگا اور جس میں تقویٰ کم ہوگا اس کا دل مردہ ہوجائے گا۔ اور جس کا دل مردہ ہوگیا وہ دوزخ میں جا پڑا۔ جو شخص لوگوں کے عیوب کو دیکھ کر نا ک بھول چڑھائے اور پھر انہیں اپنے لیے چاہے اور سرا سرا حمق ہے قناعت ایسا سرمایہ ہے جو ختم نہیں ہوتا۔ جو موت کو زیادہ یاد رکھتا ہے وہ تھوڑی سی دنیا پر بھی خوش ہو رہتا ہے۔ جو شخص یہ جانتا ہے کہ اس کاقول بھی عمل کا ایک جز ہے، وہ مطلب کی بات کے علاوہ کلام نہیں کرتا۔

350 لوگوں میں جو ظالم ہو اس کی تین علامتیں ہیں :وہ ظلم کرتا ہے اپنے سے بالا ہستی کی خلاف ورزی سے، اور اپنے سے پست لوگوں پر قہر و تسلط سے اور ظالموں کی کمک و امداد کرتا ہے۔

351جب سختی انتہا کوپہنچ جائے تو کشائش و فراخی ہوگی اور جب ابتلاء ومصیبت کی کڑیاں تنگ ہوجائیں تو راحت و آسائش حاصل ہوتی ہے۔

352اپنے اصحاب میں سے ایک سے فرمایا زن و فرزند کی زیادہ فکر میں نہ رہو، اس لیے کہ اگر وہ دوستان خدا ہیں تو خدا اپنے دوستوں کو برباد نہ ہونے دے گا اور اگر دشمنان خدا ہیں تو تمہیں دشمنان خدا کی فکروں اور دھندوں میں پڑنے سے مطلب ہی کیا۔

353سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ اس عیب کو بر ا کہو، جس کے مانند خود تمہارے اندر موجود ہے۔
اس سے بڑھ کر اور عیب کیا ہوسکتا ہے کہ انسان دوسروں کے ان عیوب پر نکتہ چینی کرے جو خود اس کے اندر بھی پائے جاتے ہوں، تقاضائے عدل تو یہ ہے کہ وہ دوسروں کے عیوب پر نظر کرنے سے پہلے اپنے عیوب پر نظرکرے اور سوچے کہ عیب، عیب ہے وہ دوسرے کے اند ر پایا جائے یا اپنے اندر

ہمہ عیب خلق دیدن نہ مروت است و مروی نگہے بخویشین کن کہ ہمہ گنا ہ داری
354حضرت کے سامنے ایک نے دوسرے شخص کو فرزند کے پید ا ہونے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ »شہسوار مبارک ہو«.جس پر حضرت نے فرمایا کہ یہ نہ کہو کہ تم بخشنے والے (خدا) کے شکر گزار ہوئے یہ بخشی ہوئی نعمت تمہیں مبارک ہو، یہ اپنے کمال کو پہنچے اور اس کی نیکی و سعادت تمہیں نصیب ہو۔

355حضرت کے عمال میں سے ایک شخص نے ایک بلند عمار ت تعمیر کی جس پر آپ نے فرمایا۔ چاندی کے سکوں نے سر نکالا ہے۔ بلاشبہ یہ عمار ت تمہاری ثروت کی غمازی کرتی ہے.

356حضرت سے کہا گیا کہ اگر کسی شخص کو گھر میں چھوڑ کر اس کا دروازہ بند کردیا جائے تو اس کی روزی کدھر سے آئے گی؟ فرمایا:
جدھر سے اس کی موت آئے گی۔
اگر خداوند عالم کی مصلحت اس امر کی مقتضی ہو کہ وہ کسی ایسے شخص کو زندہ رکھے جسے کسی بند جگہ میں محصور کردیاگیا ہو، تو وہ اس لیے سروسامان زندگی مہیا کرکے اسے زندہ رکھنے پر قادر ہے اور جس طرح بند دروازے موت کو نہیں روک سکتے، اسی طرح رزق سے بھی مانع نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ اس قادر مطلق کی قدرت دونوں پر یکساں کار فرما ہے.
مقصد یہ ہے کہ انسان کو رزق کے معاملہ میں قانع ہونا چاہیے کیونکہ جو اس کے مقدر میں ہے وہ جہا ں کہیں بھی ہوگا، اسے بہر صورت ملے گا

می رسد در خانہ در بستہ روزی چوں اجل حرص داردایں چنیں آشفتہ خاطر خلق را
357حضرت نے ایک جماعت کو ان کے مرنے والے کی تعزیت کرتے ہوئے فرمایا کہ »موت کی ابتداء تم سے نہیں ہوئی ہے اور نہ اس کی انتہا تم پر ہے یہ تمہارا ساتھی مصروف سفر رہتا تھا۔ اب بھی یہی سمجھو کہ وہ اپنے کسی سفرمیں ہے اگر وہ آگیا تو بہتر، ورنہ تم خود اس کے پاس پہنچ جاؤگے«۔

358اے لوگو! چاہیے کہ اللہ تم کو نعمت و آسائش کے موقع پر بھی اسی طرح خائف و ترساں دیکھے جس طرح تمہیں عذاب سے ہراساں دیکھتا ہے۔ بیشک جسے فراخ دستی حاصل ہو، اور وہ اسے کم کم عذاب کی طرف بڑھنے کا سبب نہ سمجھے تو اس نے خوفناک چیز سے اپنے کو مطمئن سمجھ لیا اور جو تنگدست ہو اور وہ اسے آزمائش نہ سمجھے تو اس نے اس ثواب کو ضائع کردیا۔ کہ جس کی امید وآرزو کی جاتی ہے.

359اے حرص و طمع کے اسیرو! باز آؤ کیونکہ دنیا پر ٹوٹنے والوں کو حوادث زمانہ کے دانت پیسنے ہی کا اندیشہ کرنا چاہیے۔
اے لوگو! خود ہی اپنی اصلاح کا ذمہ لو, اور اپنی عادتوں کے تقاضوں سے منہ موڑلو۔

360کسی کے منہ سے نکلنے والی بات میں اگر اچھائی کاپہلو نکل سکتا ہو، تو اس کے بارے میں بدگمانی نہ کرو۔

No comments: