Friday 27 August 2010

اقوال ۳۶۱ تا ۳۹۰

اقوال ۳۶۱ تا ۳۹۰
361جب اللہ تعالیٰ سے کوئی حاجت طلب کرو، تو پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجو، پھر اپنی حاجت مانگو، کیونکہ خداوند عالم اس سے بلند تر ہے کہ اس سے دوحاجتیں طلب کی جائیں اور وہ ایک پوری کردے اور ایک روک لے۔

362جسے اپنی آبرو عزیز ہو، وہ لڑائی جھگڑے سے کنارہ کش رہے۔

363امکان پیداہونے سے پہلے کسی کام میں جلد بازی کرنا اور موقع آنے پر دیر کرنا دونوں حماقت میں داخل ہیں۔

364جو بات نہ ہونے والی ہو اس کے متعلق سوال نہ کرو۔ اس لیے کہ جو ہے، وہی تمہارے لیے کافی ہے۔

365فکر ایک روشن آئینہ ہے، عبر ت اندوزی ایک خیر خواہ متنبہ کرنے والی چیز ہے، نفس کی اصلاح کے لیے یہی کافی ہے کہ جن چیزوں کو دوسروں کے لیے برا سمجھتے ہو ان سے بچ کر رہو۔

366علم عمل سے وابستہ ہے۔ لہٰذا جو جانتا ہے وہ عمل بھی کرتا ہے اور علم عمل کو پکارتا ہے۔ اگروہ لبیک کہتا ہے تو بہتر، ورنہ وہ بھی اس سے رخصت ہوجاتا ہے۔

367اے لوگو! دنیا کا سازوسامان سوکھا سڑا بھوسا ہے جو وبا پید ا کرنے والاہے۔ لہٰذ ا اس چراگاہ سے دور رہو کہ جس سے چل چلاؤ باطمینان منزل کرنے سے زیادہ فائدہ مند ہے اورصرف بقدر کفاف لے لینا اس دولت و ثروت سے زیادہ برکت والا ہے اس کے دولت مندوں کے لیے فقر طے ہوچکا ہے اور اس سے بے نیاز رہنے والوں کو راحت کا سہارا دیا گیا ہے۔ جس کو اس کی سج دھج لبھا لیتی ہے، وہ انجام کار اس کی دونوں آنکھوں کو اندھا کردیتی ہے اور جو اس کی چاہت کو اپنا شعار بنا لیتا ہے وہ اس کے دل کو ایسے غموں سے بھر دیتی ہے جو دل کی گہرائیوں میں تلاطم برپا کر تے ہیں یوں کہ کبھی کوئی فکر اسے گھیرے رہتی ہے، اور کبھی کوئی اندیشہ اسے رنجیدہ بنائے رہتا ہے۔ وہ اسی حالت میں ہوتا ہے کہ اس کا گلاگھوٹاجانے لگتا ہے اور وہ بیابان میں ڈال دیا جاتا ہے اس عالم میں کہ اس کے دل کی دونوں رگیں ٹوٹ چکی ہوتی ہیں۔ اللہ کو اس کا فنا کرنا سہل اور اس کے بھائی بندوں کا اسے قبر میں اتارنا آسان ہوجاتا ہے.مومن دنیا کو عبرت کی نگاہ سے دیکھتاہے اور اس سے اتنی ہی غذا حاصل کرتا ہے۔ جتنی پیٹ کی ضرورت مجبور کرتی ہے اور اس کے بارے میں ہر بات کو بغض و عناد کے کانوں سے سنتا ہے اگر کسی کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ مال دار ہو گیا ہے تو پھر یہ بھی کہنے میں آتا ہے کہ نادار ہو گیا ہے اگر زندگی پر خوشی کی جاتی ہے تو مرنے پرغم بھی ہوتا ہے۔ یہ حالت ہے حالانکہ ابھی وہ دن نہیں آیا کہ جس میں پوری مایوسی چھا جائے گی۔

368اللہ سبحانہ نے اپنی اطاعت پرثواب اور اپنی معصیت پر سزا اس لیے رکھی ہے کہ اپنے بندوں کوعذاب سے دور کرے اور جنت کی طرف گھیرکرلے جائے.

369لوگوں پر ایک ایسا دور آئے گا جب ان میں صرف قرآن کے نقوش اور اسلام کا صر ف نام باقی رہ جائے گا، اس وقت مسجدیں تعمیر و زینت کے لحا ظ سے آباد اور ہدایت کے اعتبار سے ویران ہوں گی۔ ان میں ٹھہرنے والے اور انہیں آباد کرنے والے تمام اہل زمین میں سب سے بدتر ہوں گے، وہ فتنوں کا سرچشمہ اور گناہوں کا مرکز ہو ں گے جو ان فتنوں سے منہ موڑ ے گا، انہیں انہی فتنوں کی طرف پلٹائیں گے اور جوقدم پیچھے ہٹائے گا، انہیں دھکیل کر ان کی طرف لائیں گے۔ ارشاد الہی ہے کہ »مجھے اپنی ذات کی قسم میں ان لوگوں پر ایسا فتنہ نازل کروں گا جس میں حلیم و بردبار کو حیران و سر گردان چھوڑ دوں گا «.
چنانچہ وہ ایسا ہی کرے گا، ہم اللہ سے غفلت کی ٹھوکروں سے عفو کے خواستگار ہیں۔

370جب بھی آپ منبر پر رونق افروز ہوتے تو ایسا اتفاق کم ہوتا تھا کہ خطبہ سے پہلے یہ کلما ت نہ فرمائیں۔
اے لوگو! اللہ سے ڈرو,کیونکہ کوئی شخص بے کار پیدا نہیں کیاگیا کہ وہ کھیل کود میں پڑ جائے، اور نہ اسے بے قید و بند چھوڑ دیا گیا ہےکہ بیہودگیا ں کرنے لگے اور دنیا جو اس کے لیے آراستہ و پیراستہ ہے اس آخرت کا عوض نہیں ہوسکتی جس کو اس کی غلط نگاہ نے بری صورت میں پیش کیا ہے وہ فریب خوردہ جو اپنی بلند ہمتی سے دنیا حاصل کرنے میں کامیاب ہو اس دوسرے شخص کے مانند نہیں ہوسکتا جس نے تھوڑا بہت آخرت کا حصہ حاصل کرلیا ہو۔

371کوئی شرف اسلام سے بلند تر نہیں کوئی بزرگی تقویٰ سے زیادہ با وقار نہیں، کوئی پناہ گاہ پرہیز گاری سے بہتر نہیں، کوئی سفارش کرنے والا توبہ سے بڑھ کر کامیاب نہیں، کوئی خزانہ قناعت سے زیادہ بے نیاز کرنے والا نہیں کوئی مال بقدر کفاف پر رضا مند رہنے سے بڑھ کرفقر و احتیاج کا دور کرنے والا نہیں۔ جوشخص قدر حاجت پر اکتفا کرلیتا ہے وہ آسائش و راحت پالیتا ہے۔ اورآرام و آسودگی میں منزل بنا لیتا ہے۔ خواہش و رغبت، رنج و تکلیف کی کلید اور مشقت و اندو ہ کی سوار ی ہے.حرص تکبر اور حسد گناہوں میں پھاند پڑنے کے محرکا ت ہیں اور بدکرداری تمام برے عیوب کو حاوی ہے۔

372جابر ابن عبداللہ انصار ی سے فرمایا اے جابر! چارقسم کے آدمیوں سے دین و دنیا کا قیام ہے عالم جو اپنے علم کو کام میں لاتا ہو,جاہل جو علم کے حاصل کرنے میں عار نہ کرتا ہو,سخی جو داد و دہش میں بخل نہ کرتا ہو، اور فقیر جو آخرت کو دنیا کے عوض نہ بیچتا ہو۔ تو جب عالم اپنے علم کو برباد کرے گا، توجاہل اس کے سیکھنے میں عار سمجھے گا اور جب دولت مند نیکی و احسان میں بخل کرے گا تو فقیر اپنی آخرت دنیا کے بدلے بیچ ڈالے گا۔
اے جابر ! جس پراللہ کی نعمتیں زیادہ ہوں گی لوگوں کی حاجتیں بھی اس کے دامن سے زیادہ وابستہ ہوں گی لہٰذا جوشخص ان نعمتوں پرعائد ہونے والے حقوق کو اللہ کی خاطر ادا کرے گا، وہ ان کے لیے دوام و ہمیشگی کا سامان کرے گا اور جو ان واجب حقوق کے ادا کرنے کے لیے کھڑا نہیں ہو گا وہ انہیں فنا و بربادی کی زد پر لے آئے گا۔

373ابن جریر طبری نے اپنی تاریخ میں عبدالرحمٰن ابن ابی لیلیٰ فقیہ سے روایت کی ہے اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جو ابن اشعث کے ساتھ حجا ج سے لڑنے کے لیے نکلے تھے کہ وہ لوگوں کو جہاد پر ابھارنے کے لیے کہتے تھے کہ جب اہل شام سے لڑنے کے لیے بڑھے تو میں نے علی علیہ السلام کو فرماتے سنا۔
اے اہل ایمان ! جو شخص دیکھے کہ ظلم و عدوان پر عمل ہو رہا ہے اور برائی کی طرف دعوت دی جارہی ہے اور وہ دل سے اسے برا سمجھے، تو وہ (عذاب سے )محفوظ اور (گناہ سے) بری ہو گیا، اور جوزبان سے اسے برا کہے وہ ماجور ہے صرف دل سے بر اسمجھنے والے سے افضل ہے اور جو شخص شمشیر بکف ہو کر اس برائی کے خلاف کھڑا ہوتا کہ اللہ کا بول بالا ہو، اور ظالموں کی بات گر جائے تو یہی وہ شخص ہے جس نے ہدایت کی راہ کو پالیا اور سیدھے راستے پر ہولیا اور اس کے دل میں یقین نے روشنی پھیلا دی۔

374اسی انداز پرحضرت کا ایک یہ کلام ہے لوگوں میں سے ایک وہ ہے جو برائی کو ہاتھ، زبان اور دل سے برا سمجھتا ہے۔ چنانچہ اس نے اچھی خصلتوں کو پورے طور پر حاصل کر لیا ہے اور ایک وہ ہے جو زبان اور دل سے براسمجھتا ہے لیکن ہاتھ سے اسے نہیں مٹاتا تو اس نے اچھی خصلتوں میں سے دوخصلتوں سے ربط رکھا اور ایک خصلت کو رائیگاں کر دیا اور ایک وہ ہے جو دل سے بر ا سمجھتا ہے لیکن اسے مٹانے کے لیے ہاتھ اور زبان کسی سے کام نہیں لیتا اس نے تین خصلتوں میں سے دوعمدہ خصلتوں کو ضائع کردیا، اور صرف ایک سے وابستہ رہا اور ایک وہ ہے جو نہ زبان سے، نہ ہاتھ سے اور نہ دل سے برائی کی روک تھام کرتا ہے، یہ زندوں میں (چلتی پھرتی ہوئی )لاش ہے۔
تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تمام اعمالِ خیر اور جہاد فی سبیل اللہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقابلہ میں ایسے ہیں، جیسے گہرے دریا میں لعاب دہن کے ریزے ہوں یہ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ایسا نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے موت قبل از وقت آجائے، یا رزق معین میں کمی ہوجائے اور ان سب سے بہتر وہ حق بات ہے جو کسی جابر حکمرا ن کے سامنے کہی جائے۔

375ابو حجیفہ سے روایت ہے کہ انہوں نے امیر المومنین علیہ السّلام کو فرماتے سنا کہ !
پہلا جہاد کہ جس سے تم مغلوب ہو جاؤگے، ہاتھ کا جہاد ہے۔ پھر زبان کا، پھر دل کا جس نے د ل سے بھلائی کو اچھائی اور برائی کو بر ا نہ سمجھا، اسے الٹ پلٹ کر دیا جائے گا۔ اس طرح کہ اوپر کا حصہ نیچے اور نیچے کا حصہ اوپر کردیا جائے گا۔

376حق گراں، مگر خوش گوار ہوتا ہے اور باطل ہلکا,مگر وبا پیداکرنے والا ہوتا ہے۔

377اس امت کے بہترین شخص کے بارے میں بھی اللہ کے عذاب سے بالکل مطمئن نہ ہو جاؤ.کیونکہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے کہ »گھاٹا اٹھانے والے لوگ ہی اللہ کے عذاب سے مطمئن ہوبیٹھے ہیں «.اور اس امت کے بدترین آدمی کے بارے میں بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ کیونکہ ارشاد الہی ہے کہ »خداکی رحمت سے کافروں کے علاوہ کوئی اورناامید نہیں ہوتا «.

378بخل تمام برے عیوب کا مجموعہ ہے اور ایسی مہار ہے جس سے ہربرائی کی طرف کھنچ کر جایاجا سکتا ہے۔

379رزق دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک وہ جس کی تلا ش میں تم ہو، اور ایک وہ جوتمہاری جستجو میں ہے۔ اگر تم اس تک نہ پہنچ سکو گے، تو وہ تم تک پہنچ کررہے گا۔ لہٰذ ا اپنے ایک دن کی فکر پر سال بھر کی فکریں نہ لادو۔ جو ہر دن کارزق ہے وہ تمہارے لیے کافی ہے، تو اللہ ہر نئے دن جو روزی اس نے تمہارے لیے مقرر کر رکھی ہے وہ تمہیں دے گا اور تمہاری عمر کا کوئی سال باقی نہیں ہے تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کوئی طلبگارتمہارے رزق کی طرف تم سے آگے بڑھ نہیں سکتا اور نہ کوئی غلبہ پانے والا اس میں تم پر غالب آسکتا ہے اور جو تمہارے لیے مقدر ہوچکا ہے اس کے ملنے میں کبھی تاخیر نہ ہوگی.
(سید رضی فرماتے ہیں کہ) یہ کلام اسی باب میں پہلے بھی درج ہوچکا ہے۔ مگر یہاں کچھ زیادہ وضاحت و تشریح کے ساتھ تھا,اس لیے ہم نے اس کا اعادہ کیا ہے اس قاعدہ کی بناء پر جو کتا ب کے دیباچہ میں گزر چکا ہے۔
380بہت سے لوگ ایسے دن کا سامنا کرتے ہیں جس سے انہیں پیٹھ پھرانا نہیں ہوتا۔ اور بہت سے ایسے ہوتے ہیں کہ رات کے پہلے حصہ میں ان پر رشک کیا جاتا ہے اورآخر ی حصہ میں ان پر رونے والیوں کا کہرام بپاہوتا ہے.

381کلام تمہارے قید وبند میں ہے جب تک تم نے اسے کہا نہیں ہے اور جب کہہ دیا، تو تم اس کی قید و بند میں ہو۔ لہٰذا اپنی زبان کی اسی طرح حفاظت کرو جس طرح اپنے سونے چاندی کی کرتے ہو کیونکہ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جو کسی بڑی نعمت کو چھین لیتی اور مصیبت کو نازل کردیتی ہیں۔

382جو نہیں جانتے اسے نہ کہو، بلکہ جوجانتے ہو، وہ بھی سب کاسب نہ کہو۔ کیونکہ اللہ سبحانہ نے تمہارے تمام اعضا پر کچھ فرائض عائد کئے ہیں جن کے ذریعہ قیامت کے دن تم پر حجت لائے گا۔

383اس بات سے ڈرتے رہو کہ اللہ تمہیں اپنی معصیت کے وقت موجود اور اپنی اطاعت کے وقت غیر حاضر پائے تو تمہارا شمار گھاٹا اٹھانے والوں میں ہو گا.جب قوی ودانا ثابت ہونا ہو تو اللہ کی اطاعت پر اپنی قو ت دکھاؤاور کمزور بننا ہو تواس کی معصیت سے کمزوری دکھاؤ.

384دنیا کی حالت دیکھتے ہوئے اس کی طرف جھکنا جہالت ہے اور حسن عمل کے ثواب کا یقین رکھتے ہوئے اس میں کوتاہی کرنا گھاٹا اٹھانا ہے۔ اور پرکھے بغیر ہر ایک پر بھروسا کرلینا عجز و کمزور ی ہے۔

385اللہ کے نزدیک دنیا کی حقارت کے لیے یہی بہت ہے کہ اللہ کی معصیت ہوتی ہے تو اس میں اور اس کے یہاں کی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں تو اسے چھوڑنے سے۔

386جو شخص کسی چیز کو طلب کرے تو اسے یا اس کے بعض حصہ کو پالے گا۔ (جونیدہ یا بندہ )

387وہ بھلائی بھلائی نہیں جس کے بعد دوزخ کی آگ ہو۔ اور وہ برائی برائی نہیں جس کے بعد جنت ہو۔ جنت کے سامنے ہر نعمت حقیر، اور دوزخ کے مقابلہ میں ہر مصیبت راحت ہے۔

388اس بات کو جانے رہو کہ فقر و فاقہ ایک مصیبت ہے، اور فقر سے زیادہ سخت جسمانی امراض ہیں اور جسمانی امراض سے زیادہ سخت دل کا روگ ہے۔ یاد رکھو کہ مال کی فراوانی ایک نعمت ہے اور مال کی فراوانی سے بہتر صحت بدن ہے، اور صحت بد ن سے بہتر دل کی پرہیز گاری ہے۔

389جسے عمل پیچھے ہٹائے، اسے نسب آگے نہیں بڑھا سکتا (ایک دوسری روایت میں اس طرح ہے )جسے ذاتی شرف و منزلت حاصل نہ ہو اسے آباؤ اجداد کی منزلت کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔

390مومن کے اوقات تین ساعتوں پر منقسم ہوتے ہیں ایک وہ کہ جس میں اپنے پروردگار سے رازو نیاز کی باتیں کرتا ہے۔ اور ایک وہ جس میں اپنے معاش کا سروسامان کرتا ہے اور وہ کہ جس میں حلال و پاکیزہ لذتوں میں اپنے نفس کو آزاد چھوڑ دیتا ہے۔ عقلمند آدمی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ گھر سے دور ہو، مگر تین چیزوں کے لیے »معاش«کے بندوبست کے لیے یا امر آخرت کی طرف قدم اٹھانے کے لیے یا ایسی لذت اندوزی کے لیے کہ جو حرام نہ ہو.

No comments: