Friday 27 August 2010

اقوال ۱۵۱ تا ۱۸۰


اقوال ۱۵۱ تا ۱۸۰
151 ہر شخص کا ایک انجام ہے۔ اب خواہ وہ شیریں ہو یا تلخ۔

152 ہر آنے والے کے لیے پلٹنا ہے اور جب پلٹ گیا تو جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔

153 صبر کرنے والا ظفرو کامرانی سے محروم نہیں ہوتا، چاہے اس میں طویل زمانہ لگ جائے.

154 کسی جماعت کے فعل پر رضا مند ہونے والا ایسا ہے جیسے اس کے کام میں شریک ہو۔ اور غلط کام میں شریک ہو نے والے پر دو گناہ ہیں۔ ایک اس پر عمل کرنے کا اور ایک اس پر رضا مند ہونے کا۔

155 عہد و پیمان کی ذمہ داریوں کو ان سے وابستہ کرو جو میخوں کے ایسے (مضبوط) ہوں۔

156 تم پر اطاعت بھی لازم ہے ان کی جن سے ناواقف رہنے کی بھی تمہیں معافی نہیں۔
خداوند عالم نے اپنے عدل و رحمت سے جس طرح دین کی طرف رہبری و رہنمائی کر نے کے لیے انبیاء کا سلسلہ جاری کیا اسی طرح سلسلہ نبوت کے ختم ہونے کے بعد دین کو تبدیلی و تحریف سے محفوظ رکھنے کے لیے امامت کا نفاذ کیا تاکہ ہر امام علیہ السّلام اپنے اپنے دور میں تعلیمات الہیہ کو خواہش پرستی کی زد سے بچا کر اسلام کے صحیح احکام کی رہنمائی کرتا رہے اور جس طرح شریعت کے مبلغ کی معرفت واجب اسی طرح شریعت کے محافظ کی بھی معرفت ضروری ہے اور جاہل کو اس میں معذور نہیں قراردیا جاسکتا۔ کیونکہ منصب امامت پر صدہا ایسے دلائل و شواہد موجود ہیں جن سے کسی بابصیرت کے لیے گنجائش انکار نہیں ہوسکتی چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
جو شخص اپنے دور حیات کے امام کو نہ پہچانے اور دنیا سے اٹھ جائے، اس کی موت کفر و ضلالت کی موت ہے۔
ابن ابی الحدید نے بھی اس ذات سے کہ جس سے ناواقفیت و جہالت عذر مسمو ع نہیں بن سکتی حضرت کی ذات کو مراد لیا ہے اور ان کی اطاعت کا اعتراف اور منکر امامت کے غیر ناجی ہونے کا اقرار کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ:
جو شخص حضرت علی علیہ السلام کی امامت سے جاہل اور اس کی صحت و لزوم کا منکر ہو وہ ہمارے اصحاب کے نزدیک ہمیشہ کے لیے جہنمی ہے.نہ اسے نماز فائدہ دے سکتی ہے نہ روزہ۔ کیونکہ معرفت امامت ان بنیادی اصولوں میں شمار ہوتی ہے جو دین کے مسلمہ ارکان ہیں۔ البتہ ہم آپ کی امامت کے منکر کو کافر کے نام سے نہیں پکارتے بلکہ اسے فاسق خارجی اور بے دین وغیرہ کے ناموں سے یاد کرتے ہیں اور شیعہ ایسے شخص کو کافر سے تعبیر کرتے ہیں، اور یہی ہمارے اصحاب اور ان میں فر ق ہے۔ مگر صرف لفظی فرق ہے کوئی واقعی اور معنوی فرق نہیں ہے. (شرح ابن ابی الحدید، جلد 4، صفحہ 1319)
157 اگر تم دیکھو، تو تمہیں دکھایا جاچکا ہے اور اگر تم ہدایت حاصل کرو تو تمہیں ہدایت کی جاچکی ہے اور اگر سننا چاہو تو تمہیں سنایا جاچکا ہے۔

158 اپنے بھائی کو شرمندہ احسان بنا کر سر زنش کرو اور لطف و کرم کے ذریعہ سے اس کے شر کو دور کرو۔
اگر برائی کا جواب برائی سے اور گالی کا جواب گالی سے دیا جائے، تواس سے دشمنی کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اور اگر برائی سے پیش آنے والے کے ساتھ نرمی و ملائمت کا رویہ اختیار کیا جائے تو وہ بھی اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہوجائے گا۔ چنانچہ ایک دفعہ امام حسن علیہ السلام بازار مدینہ میں سے گزر رہے تھے کہ ایک شامی نے آپ کی جاذب نظر شخصیت سے متاثر ہوکر لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ کو ن ہیں؟ اسے بتایا گیا کہ یہ حسن ابن علی علیہ السلام ہیں۔ یہ سن کر اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور آپ کے قریب آکر انہیں بر ا بھلا کہنا شروع کیا۔ مگر آپ خاموشی سے سنتے رہے جب وہ چپ ہوا توآپ علیہ السّلام نے فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ تم یہاں نووارد ہو؟ اس نے کہا کہ ہاں ایسا ہی ہے۔ فرمایا کہ پھر تم میرے ساتھ چلو میرے گھر میں ٹھہرو، اگر تمہیں کوئی حاجت ہو گی تو میں اسے پورا کروں گا، اور مالی امداد کی ضرورت ہوگی تو مالی امداد بھی دوں گا۔ جب اس نے اپنی سخت و درشت باتوں کے جواب میں یہ نرم روی و خوش اخلاقی دیکھی، تو شرم سے پانی پانی ہو گیا اور اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے عفو کا طالب ہوا، اورجب آپ سے رخصت ہوا تو روئے زمین پر ان سے زیادہ کسی کی قدر و منزلت ا س کی نگاہ میں نہ تھی۔

اگر مرد ی احسن الی من اساء
159 جوشخص بدنامی کی جگہوں پر اپنے کو لے جائے تو پھر اسے برا نہ کہے جو اس سے بدظن ہو.

160 جو اقتدار حاصل کرلیتا ہے جانبدار ی کرنے ہی لگتا ہے۔

161 جو خود رائی سے کام لے گا، وہ تباہ و برباد ہو گا اور جو دوسروں سے مشورہ لے گا وہ ان کی عقلوں میں شریک ہو جائے گا۔

162 جو اپنے راز کو چھپائے رہے گا اسے پورا قابو رہے گا۔

163 فقیری سب سے بڑی موت ہے۔

164 جو ایسے کا حق ادا کرے کہ جو اس کا حق ادا نہ کرتا ہو، تو وہ اس کی پرستش کرتا ہے۔

165 خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔

166 اگر کوئی شخص اپنے حق میں دیر کرے تو اس پر عیب نہیں لگایا جاسکتا۔ بلکہ عیب کی بات یہ ہے کہ انسان دوسرے کے حق پر چھاپا مارے۔

167 خود پسندی ترقی سے مانع ہوتی ہے.
جو شخص جویائے کمال ہوتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ ابھی وہ کمال سے عاری ہے، اس سے منزل کمال پر فائز ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ لیکن جو شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ وہ تمام و کمال ترقی کے مدارج طے کرچکا ہے وہ حصول کمال کے لیے سعی و طلب کی ضرورت محسوس نہیں کرے گا۔ کیونکہ وہ بزعم خود کمال کی تمام منزلیں ختم کرچکاہے اب اسے کوئی منزل نظرہی نہیں آتی کہ اس کے لیے تگ ودو کرے چنانچہ یہ خود پسند برخود غلط انسان ہمیشہ کمال سے محروم ہی رہے گا۔ اور یہ خود پسند ی اس کے لیے ترقی کی راہیں مسدود کردے گی۔
168 آخرت کا مرحلہ قریب اور (دنیا میں) باہمی رفاقت کی مدت کم ہے۔

169 آنکھ والے کے لیے صبح روشن ہوچکی ہے۔

170 ترک گناہ کی منزل بعد میں مدد مانگنے سے آسان ہے۔
اول مرتبہ میں گناہ سے باز رہنا اتنا مشکل نہیں ہوتا، جتنا گناہ سے مانوس اور اس کی لذت سے آشنا ہونے کے بعد کیونکہ انسان جس چیز کا خو گر ہوجاتا ہے اس کے بجا لانے میں طبیعت پر بار محسوس نہیں کرتا۔ لیکن اسے چھوڑنے میں لوہے لگ جاتے ہیں اور جوں جوں عادت پختہ ہوتی جاتی ہے۔ ضمیر کی آواز کمزور پڑجاتی ہے اور توبہ میں دشواریاں حائل ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا یہ کہہ کر دل کو ڈھارس دیتے رہنا کہ »پھر توبہ کر لیں گے «.اکثر بے نتیجہ ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ جب ابتداء میں گناہ سے دستبردار ہونے میں دشواری محسوس ہورہی ہے تو گناہ کی مدت کو بڑھا لے جانے کے بعد توبہ دشوار تر ہوجائے گی۔
171بسا اوقات ایک دفعہ کا کھانا بہت دفعہ کے کھانوں سے مانع ہوجاتا ہے۔
یہ ایک مثل ہے جو ایسے موقعوں پر استعمال ہوتی ہے جہاں کوئی شخص ایک فائدہ کے پیچھے اس طرح کھو جائے کہ اسے دوسرے فائدوں سے ہاتھ اٹھا لینا پڑے جس طرح وہ شخص کہ جو ناموافق طبع یا ضرورت سے زیادہ کھالے تو اسے بہت سے کھانوں سے محروم ہونا پڑتا ہے۔
172 لوگ اس چیز کے دشمن ہوتے ہیں جسے نہیں جانتے۔
انسان جس علم وفن سے واقف ہوتا ہے اسے بڑی اہمیت دیتا ہے اور جس علم سے عاری ہوتاہے اسے غیر اہم قرار دے کر اس کی تنقیص و مذمت کرتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ جس محفل میں اس علم و فن پر گفتگو ہوتی ہے۔ اسے ناقابل اعتنا سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے جس سے وہ ایک طرح کی سبکی محسوس کرتا ہے اور یہ سبکی اس کے لیے اذیت کا باعث ہوتی ہے اور انسان جس چیز سے بھی اذیت محسوس کر ے گا اس سے طبعا ًنفرت کرے گا اور اس سے بغض رکھے گا۔ چنانچہ افلاطون سے دریافت کیا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ نہ جاننے والا جاننے والے سے بغض رکھتا ہے مگر جاننے والا نہ جاننے والے سے بغض و عناد نہیں رکھتا ؟اس نے کہا کہ چونکہ نہ جاننے والا اپنے اندر ایک نقص محسوس کرتا ہے اور یہ گمان کرتا ہے کہ جاننے والا اس کی جہالت کی بنا پر اسے حقیر و پست سمجھتا ہوگا جس سے متاثر ہوکر وہ اس سے بغض رکھتا ہے اور جاننے والا اس کی جہالت کے نقص سے بری ہوتا ہے اس لیے وہ یہ تصور نہیں کرتا کہ نہ جاننے والا اسے حقیر سمجھتا ہوگا۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں ہوتی کہ وہ اس سے بغض رکھے۔
173 جو شخص مختلف رایوں کا سامنا کرتا ہے وہ خطا و لغزش کے مقاما ت کو پہچان لیتا ہے۔

174 جو شخص اللہ کی خاطر سنان غضب تیز کرتا ہے، وہ باطل کے سورماؤں کے قتل پر توانا ہو جاتا ہے۔
جو شخص محض اللہ کی خاطر باطل سے ٹکرانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اسے خداوند عالم کی طرف سے تائید و نصرت حاصل ہوتی ہے اور کمزوری و بے سروسامانی کے باوجود باطل قوتیں اس کے عزم میں تزلزل اور ثبات قدم میں جنبش پیدا نہیں کرسکتیں اور اگر اس کے اقدام میں ذاتی غرض شریک ہو تو اسے بڑی آسانی سے اس کے ارادہ سے باز رکھا جاسکتاہے۔ چنانچہ سید نعمت جز ائری علیہ الرحمہ نے زہرا الربیع میں تحریر کیا ہے کہ ایک شخص نے کچھ لوگوں کو ایک درخت کی پرستش کرتے دیکھا تو اُس نے جذبہ دینی سے متاثر ہوکر اس درخت کو کاٹنے کا ارادہ کیا اور جب تیشہ لے کر آگے بڑھا تو شیطان نے اس کا راستہ روکا اور پوچھا کہ کیا ارادہ ہے؟ اس نے کہا کہ میں اس درخت کو کاٹناچاہتا ہوں تاکہ لوگ مشرکانہ طریق عبادت سے باز رہیں۔ شیطان نے کہا کہ تمہیں اس سے کیا مطلب وہ جانیں اور ا ن کاکام، مگر وہ اپنے ارادہ پر جما رہا جب شیطان نے دیکھا کہ یہ ایسا کرہی گزرے گا، تواس نے کہا کہ اگر تم واپس چلے جاؤ تو میں تمہیں چار درہم ہر روز دیا کروں گا۔ جو تمہیں بستر کے نیچے سے مل جایا کریں گے یہ سن کر اس کی نیت ڈانواں ڈول ہونے لگی اور کہا کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ اس نے کہا کہ تجربہ کرکے دیکھ لو، اگر ایسا نہ ہو ا درخت کے کاٹنے کا موقع پھر بھی تمہیں مل سکتا ہے۔ چنانچہ وہ لالچ میں آکر پلٹ آیا اور دوسرے دن وہ درہم اسے بستر کے نیچے سے مل گئے۔ مگر دو چار روز کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ اب وہ پھر طیش میں آیا۔ اور تیشہ لے کر درخت کی طرف بڑھا کہ شیطان نے آگے بڑھ کر کہا کہ اب تمہارے بس میں نہیں کہ تم اسے کاٹ سکو، کیونکہ پہلی دفعہ تم صرف اللہ کی رضامند ی حاصل کرنے کے لیے نکلے تھے اور اب چند پیسوں کی خاطر نکلے ہو۔ لہٰذا تم نے ہاتھ اٹھایا تو میں تمہاری گردن توڑ دوں گا۔ چنانچہ وہ بے نیل مرام پلٹ آیا۔
175 جب کسی امر سے دہشت محسوس کرو تو اس میں پھاند پڑو، اس لیے کہ کھٹکا لگا رہنا اس ضرر سے کہ جس کا خوف ہے، زیادہ تکلیف دہ چیز ہے۔

176 سر برآوردہ ہونے کا ذریعہ سینہ کی وسعت ہے۔

177 بد کار کی سر زنش نیک کو اس کا بدلہ دے کر کرو۔
مقصد یہ ہے کہ اچھوں کو ان کی حسن کارکردگی کا پورا پورا صلہ دینا اور ان کے کارناموں کی بنا پر ان کی قدر افزائی کرنا بروں کو بھی اچھائی کی راہ پر لگا تا ہے۔ اور یہ چیز اخلاقی مواعظ اور تنبیہ و سرزنش سے زیادہ موثر ثابت ہوتی ہے کیونکہ انسان طبعاً ان چیزوں کی طرف راغب ہوتا ہے جن کے نتیجہ میں اسے فوائد حاصل ہوں اور اس کے کانوں میں مدح و تحسین کے ترانے گونجیں۔
178 دوسرے کے سینہ سے کینہ و شرکی جڑ اس طرح کاٹو کہ خود اپنے سینہ سے اسے نکال پھینکو.
اس جملہ کے دومعنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اگر تم کسی کی طرف سے دل میں کینہ رکھو گے تو وہ بھی تمہاری طرف سے کینہ رکھے گا۔ لہٰذا اپنے د ل کی کدورتوں کو مٹا کر اس کے دل سے بھی کدورت کو مٹا دو۔ کیونکہ دل دل کا آئینہ ہوتا ہے۔ جب تمہارے آئینہ دل میں کدورت کا زنگ باقی نہ رہے گا، تو اس کے دل سے بھی کدورت جاتی رہے گی اور اسی لیے انسان دوسرے کے دل کی صفائی کااندازہ اپنے دل کی صفائی سے بآسانی کرلیتا ہے۔ چنانچہ ایک شخص نے اپنے ایک دوست سے پوچھا کہ تم مجھے کتنا چاہتے ہو؟ اس نے جواب میں کہا سَل قَلبَکَ اپنے دل سے پوچھو.یعنی جتنا تم مجھے دوست رکھتے ہو اتنا ہی میں تمہیں دوست رکھتا ہوں۔
دوسرے معنی یہ ہیں کہ اگر یہ چاہتے ہو کہ دوسرے کو برائی سے روکو تو پہلے خود اس برائی سے باز آؤ. اس طرح تمہاری نصیحت دوسرے پر اثر انداز ہوسکتی ہے ورنہ بے اثر ہوکر رہ جائے گی۔
179 ضد اور ہٹ دھرمی صحیح رائے کو دور کردیتی ہے۔

180 لالچ ہمیشہ کی غلامی ہے۔

No comments: